Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

Warning: mysqli_query(): (HY000/1194): Table 'wp_upviews' is marked as crashed and should be repaired in /home/kehdopak/public_html/wp-includes/class-wpdb.php on line 2351

اے صاحب نظراں نشہ قوت ہے خطرناک(فرحان شبیر)

خبر کے مطابق پچھلے ہفتے امریکی انٹلیجنس ایجنسی سی آئی اے ہیڈکوارٹرز میں ایران کے خلاف ممکنہ کاروائی کے لئیے ٹرمپ انتظامیہ کی میٹنگ ہوئی جس میں ملٹری، ڈپلومیٹک اور انٹیلجنس آفیشل شریک تھے ایران پر حملہ سے لیکر خفیہ آپریشنز تک ِ غور آئے ۔ مقصد تو اس ملاقات کا یہ ظاہر کیا گیا کہ چونکہ امریکہ بہادر کو ایران کی جانب سے اپنے مفادات پر حملہ کا خدشہ ہے لہذا اسے روکنے کے لئیے امریکہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ بظاہر تو مریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کھلم کھلا ایران کو ایسی کسی حرکت سے باز رہنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اندرون خانہ جنگ پسند لابی کے جان بولٹن وغیرہ کی رال ٹپک رہی ہے یہی سوچ سوچ کے دیکھیں کب ایران کوئی غلطی کرتا ہے یا ایران کے نام پر کوئی تماشہ رچایا جائے ۔
ایک تماشہ ہی تو جس وقت دنیا کے اسٹیج پر جاری ہے جس میں انکل سام ( امریکہ ) نے اپنے گماشتوں کے ذریعے آدھی سے زیادہ دنیا کو کشت و زار اور جنگوں کا میدان بنایا ہوا ہے ۔ اور ہمارا یہ ریجن اس وقت سیکیورٹی کے لحاظ سے شدید خطرات کا شکار ہے ۔ پہلے ہی افغانستان میں چالیس سالوں سے جاری جنگ نے اس خطے کی خوشحالی اور ترقی کو لگامیں ڈال رکھی ہیں ۔ پہلے روس اور اب چین کو روکنے کے نام پر دنیا کی آدھی سے ذیادہ آبادی کے سر پر سالوں سے جنگ کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں جو کبھی ویٹ نام ، کوریا ، لاوس ، کمبوڈیا، کوریین پیننسولا، مشرقی جرمنی ، بوسنیا پر اپنی آگ برساتے ہیں تو کبھی افغانستان عراق لیبیا شام پر ۔ بات یہی ہے کہ ہمارے اکنامک سسٹم سے جڑے رہو ۔ اکنامک سسٹم کیپٹلزم پر واپس آجائے تو پھر ماضی میں عبرت کا نشان بنادیا جانے والا ویت نام پھر سے پیار کے قابل ہو سکتا ہے ۔ اور اگر چین کے ساتھ سی پیک میں جڑنے کی کوشش کی تو پھر افغان جہاد کا راج دلارا اور مشرف کی enlightened moderation کا نہایا ہوا پاکستان بھی نظروں سے گر کر صف دشمناں میں جا سکتا ہے ۔
آج امریکہ کی بندوق کے دہانے پر کئی ممالک نظر آتے ہیں جنہیں نشانہ بنانے کی کوششیں کی جارہیں ہیں ۔ چین اور روس امریکہ کے براہ راست اور بڑے دشمن اور حریف ہیں لیکن یہ ممالک طاقتور بھی ہیں اگر ایک جانب چین ترقی اور دفاع کی شاہراہوں پر بگٹٹ دوڑ رہا ہے اور ساری دنیا کو اپنے ون بیلٹ ون روڈ میں جوڑ کر ایک نیا ورلڈ آرڈر ترتیب دینا چاہ رہا ہے تو وہیں پوٹن کا روس بھی اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور طاقت بحال کرتا جارہا ہے اور اس دفعہ ماضی کے برعکس روس اور چین حریف نہیں حلیف اور پارٹنر بن کر میدان میں اترے ہیں ۔ ان بڑے ملکوں کے ساتھ کچھ اور چھوٹے موٹے ملک بھی امریکہ کے لئیے درد سر بنے رہتے ہیں جنہیں کبھی ایٹم بم بنانے کا شوق چڑھا ہے تو کبھی چین اور روس کے ساتھ میل ملاپ بڑھانے لگ جاتے ہیں لہذا بڑے ملکوں کے ساتھ ساتھ ان چھوٹے ممالک پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے کب آنکھ چوکے اور کب یہ چھوٹے ملک اپنی ترقی اور دفاع کے لئیے کچھ کر جائیں ۔ بڑے ملکوں سے براہ راست پنجہ کشی سے بہتر یے نیچے والوں ملکوں میں اثرورسوخ کی جنگ کھیلتے ہیں ۔ جو جیتا وہ سکندر جو ہارا وہ بندر ۔
اب ایران کے معاملے پر امریکیوں کے بیان سن سن کر لگ رہا پے کہ وہ یہ طے کر بیٹھے ہیں ایران ان پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے اور اس تمام کاروائیوں کا سرخیل امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بدنام زمانہ جنگ پرست نیو کونز جان بولٹن اور دوسرا ہارڈ لائینر ایوینجلیکل کرسچن نیو کون امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ہے جو جان بوجھ کر انٹیلیجنس رپورٹس کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں جیسے 2003 میں عراق پر حملہ کرنے سے پہلے امریکی چول ترین صدر بش جونئیر اور اس کے وزیر خارجہ کولن پاول عراق کے ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن کا مانٹرا لیکر کر رہے تھے ۔ ایک شور مچایا گیا کہ عراق ، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا رہا ہے ( بڑے پیمانے ؛ واہ صاحب واہ ) ۔ جس جان بولٹن نے عراق کے ویپنز آف ماس ڈسٹرکٹشن کا ہوا کھڑا کرکے عراق پر حملے کا راستہ ہموار کیا تھا ۔ آج پھر سے وہی جان بولٹن امریکی مفادات اور تنصیبات پر کسی ممکنہ ایرانی حملے کا شور مچا رہا ہے ۔ نہ کبھی وہ ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن نکلے نہ ان امریکیوں کی آنکھ سے شرمندگی کے آنسو ۔ مرنے والے مر گئے جینے والے جیتے جی مر رہے ہیں ۔ خون خاک مشینوں تھا رزق خاک ہوا ۔
کولیٹرل ڈیمیج ۔ پازیٹیو ڈیمیج you know

حیرت تو یورپی ممالک پر بھی ہوتی ہے اور انکے لیڈروں پر بھی کسی میں بھی اتنی جرات نہیں یا پھر انسانیت نہیں کہ امریکیوں کو تھوڑا اکڑ کے بھی دکھا سکیں ۔ جس وقت ایران کے ساتھ امریکہ اور پانچ یورپی ممالک ممالک کا پیکٹ P5+1 تو اس وقت تو سارے ہی یورپی لیڈر گردن پھلا پھلا کر فوٹو سیشنز کرا رہے تھے اب جب امریکہ نے یہ معاہدہ تاراج کر دیا اور ایران بار بار یورپی ممالک کو دوبارہ سے کسی ڈیل تک آنے کی دعوتیں دے رہا ہے تو یہ یورپی ممالک منہ میں گھنگھنیاں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان یورپی ممالک کے بے حسی اور غلامی کا رونا تو معروف کالمسٹ اور حقیقی معنوں میں سئنیر صحافی ایرک مارگولیس اپنے کالموں میں خوب روتے ہیں وہ پڑھ لینا ہی کافی ہوگا ۔
خیر اب معاملہ یہ ہے کہ ایران نے 60 دن کا الٹی میٹم دے دیا ہے کہ یورپی ممالک پہلے کی طرح معاہدے کی پاسداری کریں اور امریکہ کی سینکشنز برطرف رکھتے ہوئے ماضی قریب کی طرح ایران کے ساتھ معاملات جاری رکھیں ۔ ورنہ 60 دن بعد سے ایران یورینیم کی بڑے پیمانے پر افزودگی شروع کردے گا اور وہ بھی ویپن گریڈ ۔ جسکے جواب میں ان پٹھو یورپی سورماوں نے ایران کے الٹی میٹم کو Reject کر دیا ہے اور ایران سے پہلے کی طرح طرح یورینیم کی افزودگی پر کنٹرول رکھنے کی پابندی پر بلا چوں چراں عمل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ صحیح کہا تھا اقبال نے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ۔
اب ظاہر ہے خود ایران میں بھی امریکی سینکشنز کے نتیجے میں معاشی صورتحال پہلے ہی دگر گوں ہے۔ آئے دن ایرانی عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور یہی حالات چاہئیے ہوتے ہیں ملکوں کو نکیل ڈالنے اور اپنے راستے پر چلانے کے کے لئیے ۔ کیونکہ جس طرح امریکہ نے افغانستان میں اپنی ہر ناکامی کا ملبہ پاکستان کے سر ڈالنا ہوتا ہے وہیں مڈل ایسٹ میں آج کل اپنی ہر ناکامی کا ملبہ ایران کے سر ڈال کر اپنی عوام کو چوول بنایا جارہا ہے ۔ اور یہی ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور یہی ہمیشہ ہوتا رہیگا ۔ کبھی ویٹ نام خطرہ تو کبھی وینزویلا خطرہ کبھی القاعدہ خطرہ تو کبھی داعش خطرہ ۔ کبھی اسلامی شدت پسندی سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ جاتا ہے تو کبھی افغان طالبان کو مٹا کر دنیا کا امن بحال کرنا انکل سام کی مجبوری بن جاتا ہے ۔ اسی لئیے تو انکل سام پوچھتا ہے پتہ نہیں دنیا ہم سے نفرت کیوں کرتی ہے ۔
حالانکہ وجہ صاف ظاہر ہے نفرت کی وجہ امریکیوں کا ساری دنیا کو خود کو غلام سمجھنا ہے اور اب جس طرح سے امریکہ ایک ایک کرکے بین القوامی معاہدوں کو توڑ رہا ہے یہ واضح کرتا ہے کہ اب امریکی خارجہ پالیسی ڈپلومیٹس کے ہاتھ سے کب کی باہر ہوچکی ہے ۔ اب ہر طرف کچھ لو کچھ دو کم اور ڈنڈا زیادہ چلے گا ۔ امریکی بلاک میں رہنا ہے تو بھیک ویک امداد ومداد نان نیٹو الائی شلائی کا درجہ ملتا رہیگا لیکن اگر دور جاکر چین اور روس یا کوئی اپنا بلاک بنانے کی کوشش کی تو پھر آگ اور خون کی بارش بھی ہوسکتی ہے اور اگر اندھے نہیں ہو دیکھو کہ لاہور سے چودہ پندرہ گھنٹے بائی روڈ کی مسافت پر ہی افغانستان کے کئی شہروں کو ہم نے کھنڈرات بنا دیا ہے ۔ ہے کوئی جو ہم سے ٹکر لے ۔ آآآخ ۔۔۔ تھو ؛ بندہ نا چیز و تعمیر بیابان نگر
کسی بھی مسلم ملک کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اپنے دفاع میں خود کفیل ہو کجا یہ کہ ایٹم بم بنا لے ۔ کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب بڑی فیاضی سے ایرانی قیادت کو بات چیت کی دعوت دی ” we just don’t want them to have nuclear weapons -not too much to ask . And we would help put them back to a great shape .”واہ صاحب کیا کہنے امریکی صدر ببانگ دہل کہہ رہا کہ ایران کے پاس نیوکلئیر بم انکل سام کو بولے تو نہیں مانگتا (4) ۔ پھر بھی ہمارے ہاں دانشوڑ کہتے ہیں کہ امریکہ کو ہمارے ایٹم بم سے کوئی مسلہ نہیں ۔ او بھائی یہ ایسے ہی نہیں پاکستان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں ۔ پاکستان کا ایٹم بم اور پاکستان کا مضبوط دفاع نہیں مانگتا ہے امریکہ کو بولے تو ۔ بھارت کا ایٹم بم چلے گا ، فرانس کا چلے گا ، برطانیہ کا چلے حتی کہ اسرائیل کا بھی کود کود کے چلے گا لیکن مسلم ورلڈ کا نہیں چلے گا ۔ واقعی صحیح کہہ گئے تھا علامہ اقبال ۔
تاریخ امم کا یہ پیغام ازلی ہے
اے صاحب نظراں نشہ قوت ہے خطرناک
اس سیل سبک سیر و زمین گیر کے آگے
عشق و ہنر ، عقل و نظر ، سب ہیں خس و خاشاک۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں