زینب آٹھواں‌ شکار تھی ، قاتل کا اعتراف

معصوم زینب کے قاتل نے اعتراف کیا ہے کہ وہ زینب سے پہلے سات بچیوں‌ قتل کرچکا ہے .
سوال یہ ہے کہ ان سات بچیوں‌ کا معاملہ میڈیا نے نہیں اٹھایا تو ان کا نوٹس نہیں ہوا.. یعنی میڈیا نوٹس نہ لے تو کسی کو انصاف ہی نہیں ملے گا؟شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں‌ انصاف نام کی کوئی چیز ہی نہیں .
زینب قتل کیس میں گرفتار مبینہ ملزم عمران علی کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہی زینت سمیت 8 بچیوں کے قتل میں ملوث ہے۔زینب قتل کیس میں گرفتار مبینہ ملزم عمران علی کا ڈی این اے ٹیسٹ لیا گیا جس سے ثابت ہوا ہے کہ وہی نا صرف زینب بلکہ دیگر 7 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات میں ملوث ہے۔
ملزم عمران علی کو اسپیشل برانچ کی مدد سے گرفتار کیا گیا تھا ، پولیس نے 7 سالہ زینب کے قتل کے شبہ میں ملزم عمران کو پہلے بھی حراست میں لیا تھا لیکن پھر بچی کے رشتے داروں کے کہنے پر اسے چھوڑ دیا گیا تھا، تاہم اب ڈی این اے میچ ہوجانے کے بعد پولیس نے ملزم کو دوبارہ گرفتار کرلیا۔پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔

ملزم مقتول بچی کا دور کا رشتے دار اور زینب کے گھر کے قریب کورٹ روڈ کا رہائشی ہے جب کہ ملزم غیر شادی شدہ اور اس کی عمر 24 سال ہے۔ذرائع کے مطابق مقتول بچی اور ملزم کے گھر والوں کے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات اور ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا اور ملزم بچی کو اکثر باہر لے جایا کرتا تھا۔

(زینب کا قاتل عمران علی)
زینب کے قتل کے بعد قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ملزم پہلے پاک پتن فرار ہوا اور پھر وہاں سے عارف والا چلا گیا تھا جبکہ اس نے اپنی داڑھی بھی منڈھوا لی تھی زینب کے قتل کے بعد سامنے آنے والی سی سی ٹی وی ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کی داڑھی تھی۔ملزم کو دوسرے شہر سے گرفتار کرکے لایا گیا، اس کا دوبارہ ڈی این اے کرایا گیا اور اس بار ڈی این اے میچ کرگیا، جس کی رپورٹ پولیس کو موصول ہوگئی ہے۔پولیس کا کہنا ہےکہ ملزم عمران علی کے اہل خانہ کو بھی حراست میں لے انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جہاں ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ملزم کے ڈی این اے کے بعد اسے پولی گرافی ٹیسٹ کے لیے فرانزک لیب بھیجا گیا جہاں اس کا پولی گرافی ٹیسٹ بھی مثبت آیا اور ملزم کا جھوٹ پکڑا گیا ہے..
ملزم پکڑا جاچکا ہے . لیکن لمحہ فکریہ ، یہ ہے کہ جس معاملے کا میڈیا پر شور مچ جائے اس کے پیچھے تمام سرکاری مشینری لگا کر معاملہ تو حل کرلیا جاتا ہے ، لیکن ان دیگر لاکھوں‌ لوگوں‌ کا کیا ہوگا ، جن کے کیسز میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوسکے ہیں ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں