نوجوانوں میں سیاسی فکرو افکار (پرھ اعجاز ،کراچی)

اکثر کہا جاتا ہے نوجوان اپنے ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں لیکن یہ سرمایہ اُس وقت تک ناقابلِ استعمال ہوتا ہے جب تک اُس میں عقل و شعور نہ ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ آج کل کے نوجوان ملک کے لیئے اپنے جذبات کا اظہار بہت جوش و جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ہر صوبے کی منفرد ثقافت اور طرز زندگی کے باعث تمام نوجوان ہر سال میں ہونے والے قومی تہوار اپنی تہذیب کے زیرِ اثر بڑے پُر جوش طریقے سے مناتے ہیں ۔لیکن جب بات کی جاتی ہے اُن کے سیاسی سوچ و افکار کی تومعاملات نہایت الگ دکھائی دیتے ہیں۔در حقیقت ہم اُس معاشرے کاحصہ ہیں ،جہاں فرقہ پرستی اور تعصب عام ہے ، یہاں تک کہ مذہب کے معاملے میں بھی لوگوں نےالگ الگ عقیدے رکھے ہوئے ہیں ۔
یہ سلسلہ پاکستان کی تاریخ سے چلتا ہی آرہا ہے اور اِسی کے باعث تمام مسائل جنم لیتے ہیں ۔ جن کی بدولت نسلِ نو بھی انہی کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے ،جس کے نتیجے میں وہ دنیا کی بھیڑ چال کی طرح دوسروں کی اندھی تقلید کیئے جارہے ہیں۔ اِنہی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا ہرگزغلط نہ ہوگا کہہمارے ملک کے نوجوانوں کی اپنی کوئی سوچ ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ ملک کے حالات ، سیاسی لیڈرز اور اُن کے نمائندوں کو دیکھتے ہوئے بجائے کہ حق و سچ کا ساتھ دے کر اپنی سوچ کو پختہ کریں ،اُس کے برعکس فرقہ ورانہ برتاوکرکے تعصب پرستی کو فروغ دے رہے ہیں جو معاشرے کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ ایسی نوجوان نسل کے لیئے Trend Followersکا لفظ استعمال کیا جائے ، جو دوسرے لوگوں کی سطحی سوچ کے پیرو کار ہیں ۔
اس سے متعلق ایک کڑوا سچ یہ بھی کہ اس قسم کے نوجوانوں کی سیاست سے دلچسپی دیر پا نہیں ہوتی بلکہ محض انتخابات ہونے تک ہی محدود ہوتی ہے ۔ اس لیئے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اضطرابی کیفیت کا شکار ہے۔ اِس کی وجہ نہ صرف تعلیم کا فقدان ہے بلکہ عقل و شعور کا فقدان بھی ہے ۔
سب سے اہم بنیادی وجہ تعلیم کا نہ ہوناہے ، کیونکہ ہمارے تعلیمی اداروں میں سکھایا سمجھایا نہیں جاتا بلکہ طلبہ و طالبات کو ڈگری لینے کی ریس میں شامل کرنے کے لیئےتیار کیا جاتاہے ۔ موجودہ دور میں تعلیمی اداروں کا حال دیکھ کر یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد ہی کہیں چھپ سا گیا ہے جس کے باعث ذہن کے دریچے نہیں کھلتے ،شعور بیدار نہیں ہوپا تا۔ اگر عام انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو سب سے پہلے سوشل میڈیا کا خیال آتا ہے جو آ ج کل کے دور میں تمام لوگوں کے لیئے اہم ہتھیارہے ۔ 2018 کے عام انتخابات کے متعلق کثیر تعداد میں خبروں کا بہاوٗ تھا،اور اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر پائی جانے والی تحیروں کے نیچے نوجوان نسل کی رائے کے حوالے سے اَن گنت کومنٹس پائے گئے۔
یہ معاملہ محض پچھلے سال کا نہیں بلکہ ہر سال کا ہے اورعام انتخابات کے دنوں میں ہر کسی کا یہی مشغلہ بن جاتا ہے ۔ جس میں ہر نوجوان اپنی پسند کاانتخاب کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے زریعے اُسے فروغ دے رہا ہوتا ہے ۔
نسلِ نو کی پاکستان اور سیاسی رہنماوٗں سے ایسی محبت دیکھ کر اگر اُن سے اُن کی پسندیدگی کی کوئی ٹھوس وجہ یا دلیل پوچھی جائے تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ نوجوان نسل یہ تو جانتی ہے کہ اُن کا پسندیدہ سیاسی لیڈر کون ہے لیکن یہ نہیں جانتی کہ اُن کو فالو کرنے کی کیا وجوہات ہیں ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہر فرد دلیل سے نفرت کرتا ہے ،اس لیئے جبکسی کو کوئی بات سمجھائی جاتی ہے تو وہ نظر انداز کرکے صرف اپنی رائے کو ہی ترجیح دیتا ہے ۔

دراصل کسی بھی معاملے کے متعلق اگر انسان میں عقل و شعور نہیں ہے تو اُس کی سوچ بھی اُسی طرح پروان چڑھے گی ،جس میں کوئی پختگی نہیں ہوگی۔ ہمارے ملک میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جن میں شعور کی کمی ہے لیکن وہ محض اوروں کو دیکھ کر اپنی آواز بلند کرتے ہیں ۔ یہ آج کل کی نئی نسل کا نیا شوق بنتا جارہا ہے ۔ جو میرے نزدیک وقت کا زیان ہے ۔ہمیں ایسے کئی نوجوان ملیں گے جو کبھی اپنے پسندیدہ کرکٹر کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں ،تو کبھی سیاسی رلیڈر کو، کبھی یہی نوجوان کسی تنظیم کوفروغ دے رہےہوتے ہیں اور ہر کسی کے چہرے پر ایک الگ ہی تاثر ہوتا ہے ، لیکن شعور نہ ہونے کی باعث وہ اُس کی گہرائی میں جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور نتیجے میں وہ لکیر کے فقیر بن کر رہ جاتے ہیں ، جن کی اپنی کوئی سوچ ہوتی ہے نہ فیصلے۔

عموماَ کہا جاتا ہے کہ ملک کی ترقی کا دارومدار نوجوان نسل پر ہے ۔کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس لیئے کہ وہ پُر عزم ہوتے ہیں ۔میرے نزدیک ہر انسان میں ایک تخلیق کار چھپا ہے جو ایک لیڈر کی خصوصیات رکھتا ہے ،اور وہ اُن تمام خصوصیات کی بناء پر اپنی عقل و شعور کو بھی بیدار کر سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ آگے بڑھنے کے لیئےاپنے فیصلے خود لے سکتا ہے ۔کیوں کہ اپنی شخصیت کو ایک مثبت سمت میں موڑنا حالات کے ساتھساتھ اپنے اوپر بھی منحصر ہے ، اور یہ بات بہت کم لوگ ہی سمجھ پاتے ہیں ۔ہماری زندگی کا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم خود سے زیادہ دوسروں پر بھروسہ کرکے اپنی زندگی گزارتے ہیں ،اور نتیجے میں ہم دوسروں کے ہی پیروکار بن جاتے ہیں ، جو نہ صرف ملک کے لیئے بلکہ ہماری اپنی زات کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
نوجوانوں یاد رکھو کہ حق و سچ کو سمجھ کر ہی آپ ایک اچھا انسان ، اچھا شہری بن سکتے ہو۔ کسی بھی نتائج پر پہنچنے سے پہلے اور کسی کے متعلق بھی را ئے قائم کرنے سے پہلےحقیقت کو جاننے کی کوشش کرو اور پھر اپنی زندگی میں صحیح راہ کا تعین کرو، جو یقینی طور پر آپ کی سوچ کو پختہ کرے گی اور آگے بڑھنے کی راہیں بھی ہموار کرتی چلی جائے گی ۔یاد رکھو کہ آپ سے یہ زمانہ ہے اور آپ ہی ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہو ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں