نام ارشاد احمد فاضلی اور امید تخلص تھا۔امید فاضلی کراچی کے معروف شاعر ندا فاضلی کے بھائی تھے۔ 18؍نومبر1923ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پاس کیا۔1966 میں میرٹھ میں کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں ملازم ہوگئے۔پاکستان آنے کے بعد بھی اسی محکمے سے وابستہ رہے۔اوائل عمر میں شکیل بدایونی سے مشورہ سخن کیا۔امید فاضلی غزل گو کے علاوہ مرثیہ گو بھی تھے۔
29؍ستمبر2005ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’دریا آخر دریا ہے‘(غزلوں کا مجموعہ) ،’سرنینوا‘ (مراثی کا مجموعہ)، ’میرے آقاؐ‘(حمدونعت)، ’تب وتاب جاودانہ‘(مراثی)، ’پاکستان زندہ باد‘(قومی وملی شاعری)، ’مناقب‘۔ ’’دریا آخر دریا ہے‘‘ پر آدم جی ایوارڈ ملا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:152
✦•───┈┈┈┈┈───•✦
شاعر امیدؔ فاضلی کے منتخب اشعار …
چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست
فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں
—
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر چلے جاتے
—
حجاب اٹھے ہیں لیکن وہ رو بہ رو تو نہیں
شریکِ عشق کہیں کوئی آرزو تو نہیں
—
آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں
—
گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے
—
اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں
دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا
—
یہ خود فریبئ احساسِ آرزو تو نہیں
تری تلاش کہیں اپنی جستجو تو نہیں
—
جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں
—
سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی
کہیں یہی ترا اندازِ گفتگو تو نہیں
—
وہ خواب ہی سہی پیشِ نظر تو اب بھی ہے
بچھڑنے والا شریکِ سفر تو اب بھی ہے
—
کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی
کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی
—
مقتلِ جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے
—
جانے کب طوفان بنے اور رستا رستا بچھ جائے
بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے
—
تری تلاش میں جانے کہاں بھٹک جاؤں
سفر میں دشت بھی آتا ہے گھر بھی آتا ہے
—
تم ہو جو کچھ کہاں چھپاؤ گے
لکھنے والو نظر تو آؤ گے
—
جب سے امیدؔ گیا ہے کوئی!!
لمحے صدیوں کی علامت ٹھہرے
—
سر جریدۂ ہستی ہمارے بعد امیدؔ
لہو سے کون لکھے گا عبارتیں دل کی
✧◉➻════════➻◉✧
انتخاب :کامران مغل