ٹی وی کہانی ۔۔ (شعیب واجد)

ٹی وی کہانی ۔۔
انیس سوستتر کی بات ہے، کورنگی کے ایک محلے میں دھوم مچی ہوئی تھی۔بچوں کی ٹولی گلی میں جمع تھی اور سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔اور وہ بات یہ تھی کہ رحمان کے گھر میں ٹی وی آگیا ہے۔۔رحمان ہم سب بچوں کا دوست تھا۔اس کے گھر میں ٹی وی آنے کا مطلب یہ تھا کہ اب ہم بھی ٹی وی دیکھ کر اپنے دل کو باغ باغ کرسکیں گے۔
یہ وہ زمانہ تھا،جب ٹی وی، پاکستان میں کمرشل بنیادوں پر عام ہونا شروع ہوچکا تھا۔اس وقت فلپس ، سانیو، شارپ ، گرنڈک ، ہٹاچی اور دیگر برانڈ کے ٹی وی مارکیٹ میں اپنی شان دکھا رہے تھے ۔رحمان کے گھر میں سانیو، نامی جاپانی کمپنی کا بلیک اینڈوائٹ ٹی وی آیا تھا،جس کی قیمت شاید اس وقت چار ہزار روپے کے لگ بھگ تھی۔یہ اس زمانے کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی، ٹی وی خریدنا اس وقت ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھا۔ ٹی وی ان دنوں اسٹیٹس سمبل تھا۔مالدار لوگ بڑی شان سے دوستوں کو ساتھ لیکر شوروم جاتے اور ٹی وی کا سودا کرکے گھر لے آتے اس رات گھر میں پارٹی ہوتی۔
ٹی وی کی کشش اس قدر تھی کہ مڈل کلاس طبقہ بھی ٹی وی خریدنے کیلئے بے چین رہتا تھا، اور اکثر لوگ اپنی جمع پونجی ٹی وی کی خریداری پر لٹانے کیلئے تیار رہتے ،پھر بھی پیسے کم پڑتے تو سونا بیچ کر پیسے پورے کردیتے اور ٹی وی گھر لے آتے۔
رحمان کا تعلق بھی لوئر مڈل کلاس گھرانے سے تھا اور شایدانہوں نے بھی ٹی وی کی خاطر اپنی جمع پونجی لگادی تھی۔خیر ہمیں اس وقت ان سب باتوں سے کوئی غرض نہ تھی،ہمیں تو ٹی وی اسکرین کا مکھڑا کرنا تھا،ہمارا بس چلتا تو اسی وقت رحمان کے گھر جاکر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے۔لیکن کیا کیجئے کہ اس زمانے میں ہرچیز کا اپنا ایک قاعدہ تھا۔ٹی وی کا قاعدہ حکومت کی جانب سے یہ طے ہوا تھا کہ ٹی وی شام ساڑھے چار بجے شروع ہوکررات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تک اپنا جلوہ دکھائے گا۔
اس شام محلے کے تمام بچے رحمان کے گھر میں جمع ہوچکے تھے۔اکلوتے ٹی وی چینل ،پی ٹی وی کی نشریات بس شروع ہوا ہی چاہتی تھیں۔چار ٹانگوں والا ٹی وی ہمارے سامنے اس شان سے کھڑا تھا ،جیسے کوئی شہزادہ کمر پرہاتھ رکھ کر اپنی شان و شوکت دکھا رہا ہو۔رحمان کے ٹی وی پر خوبصورت کڑہائی کیا گیا کپڑا ڈھکا ہوا تھا۔کپڑا ہٹا کر ٹی وی کی رونما ئی کا وہ منظرہمیں کبھی نہیں بھولتا۔جب اسکرین کے سامنے کے شٹر دائیں بائیں کھسکا کراسکرین اوپن کی گئی۔براؤن کلر کے وہ خوبصورت شٹر کسی دوکان کے شٹر کی طرح ٹی وی کے دائیں بائیں کھسک کر غائب ہوجاتے،یہ عمل بھی ہمیں اس وقت ٹیکنالوجی کی ایک جدت معلوم ہوتا۔
ساڑھے چار بچے نشریات کا آغاز ہوا تو ہم سب کی نظریں اسکرین پر جم گئیں۔کلام پاک کے بعد بچوں کا کارٹون پروگرام شروع ہوا۔اس وقت کمرہ بچوں کے قہقہوں سے گونج رہا تھا۔پوپائے دی سیلر کارٹون اس وقت بہت ہٹ تھا۔پوپائے، پالک کھا کر دشمن کو اپنے طاقتور گھونسوں سے اڑا کر رکھ دیتا۔ کارٹون کے ایک ایک شاٹ پربچے اپنا ری ایکشن دکھاتے..اس وقت بھی کمرے میں خوب شور مچ رہا تھا۔اس زمانے میں ہر ٹی وی شو اتنی دل جمعی سے دیکھا جاتا کہ زبانی یادہوجاتا تھا، اس شام ہم نے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پڑوسی کے گھر میں ٹی وی کے آگے گزارا، لیکن میزبانوں میں سے کسی کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی ۔۔
یہ وہ دور تھا جب محلے کے بچے سب کے سانجھے ہوتے تھے، اور کوئی بھی پڑوسی، محلے کے درجن بھر بچوں کو اپنے گھر میں گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ بٹھانے میں پریشانی محسوس نہیں کرتا تھا۔
لوگ اس زمانے میں اپنے رشتہ داروں کو بھی ٹی وی دیکھنے کی دعوت دے کر گھربلاتے اورانہیں حقیقتاً منوں احسان تلے دبا دیتے۔کئی کئی گھنٹے فراخ دلی کے ساتھ اجتماعی ٹی وی دیکھنے کا دورچلتا ، کھانا پینا بھی ہوتا۔یوں دعوت یادگار بن جاتی۔اس زمانے میں یہ محاورہ بھی عام ہوگیا تھا کہ ‘‘آپ کا اپنا ٹی وی ہے، جب چاہیں دیکھنے آجائیے گا’’۔
اس زمانے میں ٹی وی اپنی جدت کی وجہ سے ایک انتہائی انوکھی اور دل آویز ایجاد مانا جاتا تھا۔اور اس دور میں ،آج کل کی طرح کےتجزیہ کار یہ پیشنگوئیاں کرنے لگے تھے کہ ٹی وی کا دور اب سینما کے دور کا خاتمہ کردے گا۔ٹی وی اس زمانے میں بلیک اینڈوائٹ ہوتا تھا لیکن کوئی اسے بلیک اینڈ وائٹ کہتا نہیں تھا، کیونکہ رنگین ٹی وی تو اس وقت بالکل بھی عام نہیں ہوا تھا۔اورجو تھا وہ بس یہی بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہی تھا۔
ان دنوں ہماری ہر شام رحمان کے گھر میں گزرنے لگی۔ شام کو ہم نے جب بچوں کا پروگرام دیکھ کر رحمان کے گھر سے باہر نکلتے تو لگتا جیسے کسی فلم کا شو چھوٹا ہو, اور باہر بھی وہی پروگرام اور اس کے سین ڈسکس ہورہے ہوتے۔
ایک روز محلے میں بچوں کی محفل جمی ہوئی تھی۔اچانک ایک مخبر بچے نے اطلاع دی کہ دوسرے محلے کے ایک گھر میں رنگین ٹی وی آگیا ہے۔وہ محلہ ہمارے گھر سے تھوڑا دورتھا، عموماً ہم بچے اپنے محلے سے باہر نہیں نکلتے تھے، لیکن اس روز رنگین ٹی وی دیکھنے کے شوق میں ہم سب بچے ٹولی بنا کر اس گھرتک جاپہنچے۔اس گھر کے لوگ ہم بچوں کو بالکل نہیں جانتے تھے، تاہم جب ہم نے ان کو بتایا کہ ہم ٹی وی دیکھنے آئے ہیں تو انہوں نے بلا جھجک ہمیں اندر بلا لیا۔اور ہم تقریباً آدھا گھنٹا، جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام ، کا نمونہ بن کر ان کے گھر میں موجود رہے۔۔
زندگی میں پہلی بار رنگین اسکرین دیکھنے کا تجربہ بھی ناقابل فراموش تھا، اسکرین کے رنگ جیسے ٹھنڈی میٹھی آئس کریم کی مانند ہماری آنکھوں اور روح کو سیراب کررہے تھے۔میں جب بھی رنگین ٹی وی پہلی بار دیکھنے کے تجربے کے وہ لمحات یادکرتا ہوں تو انہیں الفاظ میں بیان نہیں کرپاتا۔بس کسی بہت ہی لذیذ سی رنگین آئس کریم کا خیال آتا ہے۔اس روز ان نئے میزبانوں کے گھر میں ہم نے رنگین ٹی وی کے علاوہ ٹیپ ریکارڈ اور کئی جدید آلات بھی پہلی بار دیکھے۔شاید اس گھر کا کوئی فرد ان دنوں دبئی یا سعودیہ میں مقیم تھا۔لیکن ان سب باتوں سے ذیادہ قابل ذکربات اس زمانے کے لوگوں کا رویہ تھا، وہ پیار ، اپنائیت اور برداشت آج کہاں۔
اس دور میں پاکستانیوں کیلئے ٹی وی اور پی ٹی وی چینل لازم و ملزوم تھے۔سرکاری چینل پی ٹی وی نے اپنی نشریات کا ایک خاص قاعدہ بنایا ہوا تھا، یعنی کلام پاک سے نشریات کا آغاز، پھربچوں کے سیگمینٹ، اس کے بعد کوئی انگریزی شو، پھراردو ڈرامہ ، اس کے بعد خبرنامہ ، پھرحالات حاضرہ یا کوئی ادبی پروگرام یا کبھی اردو فلم یا انگریزی مووی۔ نشریات کا اختتام فرمان الہی پرہوتا تھا، یوں یہ آٹھ نو گھنٹے کی نشریات لوگوں کو صحیح معنوں میں محظوظ کرکے اور معلومات فراہم کرکے اختتام پذیر ہوتی تھیں۔ اور اگلے روز ٹی وی کے تمام پروگرام لوگوں کی زبان پرہوتے تھے۔
ٹی وی اس زمانے میں گھر کے رکن کی حیثیت اختیارکرگیا تھا، بلکہ شاید اس کا مقام اس سے بھی کہیں ذیادہ تھا کیونکہ یہ سب کا مرکز نگاہ ہوتا تھا۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ٹی وی اس زمانے کی بہترین اقدار کا امین اور روایات کا شاہد بھی تھا۔ جب اخلاق ، خلوص اور رواداری ہماری پہچان تھا، جب ہماری خاص مشرقی روایات ، محلہ داری اور مہمان داری ہمیں آپس میں جوڑے ہوئے تھیں ،ایسے میں اس وقت کا ٹی وی ان روایات میں ایک جدید اضافے کی صورت میں ان کا حصہ بن گیا تھا۔۔
لیکن۔۔۔آج نہ وہ ٹی وی ہے اور نہ ہی وہ اقدار اور روایات ۔۔
(شعیب واجد)

#KehdoPak
#TV_Kahani
#PTV

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں