سیاست میں رجحانات کی اہمیت (مبشر محمد )

کسی دانا نے کہا کہ ۔ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔۔ دس فیصد وہ جو کسی صورت غلط کام نہیں کرتے،بے ایمانی نہیں کرتے ، اپنے اصول نہیں توڑتے ، چاہے ان کے ارد گرد باقی لوگ یا سارا جہان کچھ بھی کررہا ہو۔ دس فیصد ایسے لوگ ہیں جو ایمان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں ، جن کی نظر میں جائز ناجائز، حلال حرام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، یہ لوگ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کرتے ہیں، آپ انہیں کرپٹ، بے ایمان یا ہیرا پھیری نہ چھوڑنے والے چور بھی کہہ سکتے ہیں۔ تیسری قسم کے لوگ اسی فیصد ہوتے ہیں جو ارد گرد کے لوگوں کو دیکھ کرچلتے ہیں ۔ اگر سب لوگ سگنل توڑ کرجارہے ہوں تو یہ بھی سگنل توڑ دیتے ہیں ، اگر سب لوگ سگنل پر کھڑے ہیں تو یہ لوگ بھی کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
بچپن میں یہ بات غیر حقیقی لگتی تھی لیکن مشاہدے نے خیالات بدل ڈالے کہ یہ فارمولا صرف ایمانداری تک محدود نہیں ہے، ہر معاملے میں بڑی حد تک ایسا ہی ہوتا ہے۔
یہی فارمولا رجحان کہلاتا ہے، انتخابات کے دن لوگ کہتے نظر آتے ہیں کہ فلاں پارٹی کو سب ووٹ دے رہے ہیں تو میں نے بھی دے دیا کیوں کہ فلاں نے کون سا جیتنا ہے۔ یا فلاں کو کوئی بھی ووٹ نہیں دے رہا تھا ۔ یہ رجحان ملکی سطح پر تو چلتا ہے لیکن ہر صوبے، حلقے حتیٰ کے علاقوں تک کا رجحان اپنا اپنا بھی ہوتا ہے ۔ ملکی سطح پر چلنے والا رجحان ان پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے۔
الیکشن دوہزار اٹھارہ میں رجحان پی ٹی آئی کا تھا، جس نے اسے پنجاب ،کراچی اور بلوچستان میں بڑا ووٹ ڈلوایا ، وعدے دعوے اور پروپیگنڈے (تشہیر) نے ساتھ دے کر پی ٹی آئی کو وفاق اور پنجاب میں فتح دلوادی ۔خیبر پختونخوا میں تینوں اجزا کے ساتھ مینجمنٹ اور حکومتی کارکردگی ( امن و امان، کرپشن پر قابو، تعلیمی اداروں کی بہتری) نے بھی ساتھ دیااور تحریک انصاف نے کلین سوئپ کیا ۔مسلم لیگ ن کو ترقیاتی منصوبوں، میٹرو، اورنج ٹرین، سڑکوں، پلوں،سیاسی مینجمنٹ ، بریانی اور کچھ حد تک جاگیرداری کا ووٹ پڑنا تھاجن پر رجحان بھاری پڑگیا اور تمام اجزا خصوصی نشستوں کے ساتھ ن لیگ کو بیاسی کے ہندسے تک ہی پہنچا سکے۔
کراچی میں دوہزار تیرہ اور دوہزار اٹھارہ میں جماعت اسلامی کا بڑا ووٹ تحریک انصاف کو پڑاہے ، اس کی وجہ یہی رجحان تھا ، لوگوں کو لگا کہ جماعت اسلامی تو جیتنے والی نہیں ہے ۔ لہذا پی ٹی آئی کو ووٹ دے دینا چاہیے ۔ یہ رجحان پورے پاکستان پر اثر انداز ہوا لیکن کراچی کے علاوہ باقی سندھ اس سے زیادہ متاثر نہیں ہوا۔

سیاسی لیڈران کی جانب سے کُشتوں کے پُشتے لگادینے کے دعوے یا پیش گوئیاں اسی رجحان کو پیدا کرنے کے لیے ہوتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری جلسوں میں لوگوں کو الیکشن کے بعد اپنے وزیراعظم ہونے کی یقین دہانیاں کرارہے تھے لیکن حقیقت یہ ہے، اُس وقت مجھے پیپلزپارٹی کے اعلیٰ حلقوں سے یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ ‘قیادت کا ہدف بلاول کو اپوزیشن لیڈر بنوانا ہے۔’ کیوں کہ عوام کے سامنے دعوے اپنی جگہ لیکن لائحہ عمل بناتے وقت زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ۔ پیپلزپارٹی دوسری بڑی جماعت تو نہیں بن سکی لیکن اس کو سب سے زیادہ کامیابیاں ملی ہیں، عام انتخابات میں ہمیشہ حکمران رہنے والی جماعت کا ووٹ کم ہوتا ہے لیکن پیپلزپارٹی کی سندھ میں بدترین کارکردگی کے باوجود نشستیں بڑھ گئیں ۔
پنجاب میں ووٹ زیادہ پڑا، پیپلزپارٹی اپنے ٹارگٹ کے قریب ہے اور مطمئن بھی ہے ۔ یہ پارٹی ڈرامائی انداز میں احتجاج کرنے والی جماعتوں کے ساتھ ہے لیکن حقیقی طور پر ایسا نہیں ہے ۔ انتخابی نتائج آصف علی زرداری کے لیے حلوہ تھا۔ وہ چاہتے تو پی ٹی آئی کو اپوزیشن کی بنچوں پر دوبارہ بٹھا سکتے تھے، چودہ آزاد اور دو چار سیاسی جماعتوں کے ارکان کو ادھر ادھر کرنا ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا لیکن پیپلزپارٹی بہت ‘صاف اور شفاف’ جماعت ہے اسی لیے وہ محکمہ زراعت سے مزید جھگڑا نہیں کرنا چاہے گی ۔۔ ختم شد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں