تیل مبارک

چندو مالشیا اپنی تیل کی بوتلوں کو خوشی سے جھنجھناتا ہوا جارہا تھا۔۔اس کے لبوں پر ایک منچلاسا گیت بھی تھا ، ”سر تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے،سوجا پیارے تیل لگا کر، کاہے گھبرائے،ہو کاہے گھبرائے“۔۔قریب ہی سے ایک آواز آئی، ابے او چندو کیوں گانے کی ٹانگ توڑ رہا ہے۔چندو نے چونک کر دیکھا تو قریبی چائے کے ہوٹل پراسے پانڈو دانت نکالتا نظر آیا۔چندو لپک کر اس کے پاس گیا،اور لہک کر بولا مالش کرا لو استاد ،آج دھندا بڑا مندا جارہا ہے۔پانڈو بولا دھندا تو اپنا بھی مندا ہی جارہا ہے اس لئے مالش نہیں کرا سکتا،چل بیٹھ تجھے چائے پلاتا ہوں ، یہ کہہ کر پانڈو نے آواز لگائی، استاد ایک دودھ پتی کٹ لگا کر لے آنا۔۔

چندو کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا،پانڈو بولا خیر ہے دھندا مندا ہے پھر بھی تو اتنا خوش خوش جارہا تھا؟ چندو بولا ، استاد خبر بھی خوشی کی ہے۔اپنے پاکستان میں خوب تیل نکل آیا ہے۔چندو کی بات سن کرپانڈو نے زور دار قہقہ لگا دیا، بولا ابے وہ تیل نہیں ہے، یہ کراچی کی سڑکیں ہیں، جن پر گٹر کا کالا پانی جمع ہے۔اس پر چندو جھنجلا کر بولا ، ارے نہیں استاد،میں گٹر کے پانی کی بات نہیں کررہا ،ابھی پچھلے ہوٹل پر کچھ لوگ باتیں کررہے تھے کہ انہوں نے خبروں میں سنا ہے کہ پاکستان میں بہت سا تیل نکل آیا ہے۔

چندو کی بات سن کر پاندو نے موبائل نکالا اور خبروں کی ویب سائٹ کھول لی۔ایک خبر میں لکھا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو میں خوش خبری سنائی ہے کہ پاکستان میں سمندر میں تیل کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں،اس بارے میں باقاعدہ اعلان جلد کیا جائے گا۔یہ پڑھ کر پانڈو بولا کہ یہ تو کمال ہوگیا،اب ہم بھی تیل سے مالا مال ہوگئے۔ ”تیل مبارک ہو چندو “ ۔

پانڈو کی بات سن کر چندو بھی خوشی سے جھومنے لگا بولا کہ اب تو ملک میں سرسوں اور چنبیلی کا تیل سستا ہوجائے گا، اپنا دھندا پھر خوب چلے گا۔چندو کی بات سن کر پانڈو اسے ایسے گھورنے لگا جیسے چندو کا دماغ چل گیا ہو،پانڈو بولا ، ابے عقلمند یہ تیرے مالش والے تیل کے ذخائر نہیں ہیں۔یہ وہ تیل ہے جس سے مشینیں اورگاڑیاں چلتی ہیں۔پانڈو کی بات سن کر چندو نے بھی قہقہ لگایا، اور بولا استادگاڑیاں تو پٹرول سے چلتی ہیں تیل سے تھوڑی،اس بات پر پانڈو اپنا سر کھجانے لگا، اتنے میں چائے آگئی اور چندو چائے کی چسکیاں لینے لگا۔

چائے کی چسکیاں لیتے لیتے اچانک چندو کے دماغ میں کوئی بات آئی۔بولا تیل کے اتنے بڑے ذخائر ملنے کے بعد اب گاڑیوں کو پٹرول تو سستا ملا کرے گا نا؟ پانڈو نے چندو کی بات سن کر کہا ،کردی نا غریبوں والی بات،حکومت نے پٹرول سستا کردیا تو پھراس کے دریافت کا فائدہ کیا ہوگا، ملک پر نوے ارب ڈالر کا قرضہ ہے وہ کیسے اترے گا؟چندو بولا کہ یعنی اس خزانے کے ملنے سے فی الحال عوام کو ئی امید نہ باندھیں؟ پانڈو بولا ابھی کون سی تیل کی پیدا وار شروع ہوگئی ہے؟ دو تین سال بعد جب تیل پوری مقدار میں نکلنے لگے گا تب کہیں جاکر لیٹر پر دس، بیس روپے کم کردیئے جائیں گے، چندو بولا بس دس بیس روپے؟پانڈو نے کہا کہ اور تو کیا جان لے گا ؟

چندو اور پانڈو کی یہ نوک جھونک اکثر چلتی رہتی تھی، پانڈو اسی ہوٹل پر اکثر چائے پینے آتا تھا ،جبکہ چندو مالشیا بھی یہاں مالش کے شوقین گاہکوں کی تلاش میں چلا آتا تھا۔چندو کہہ رہا تھا کہ نئی حکومت نے تو کمال کردیا،نو مہینے میں ہی تیل ڈھونڈ لیا۔یہ سن کر پانڈو کی پھر ہنسی نکل گئی،بولاتیل کی تلاش تو پہلے سے جاری تھی،ایگزون موبل نامی کمپنی گزشتہ سال اگست میں ہی خبر دے چکی تھی کہ پاکستان کے سمندر میں اس قدر تیل ہے جو کویت کے تیل کے ذخائر کے برابر ہے۔یہ سن کر چندو بولا کہ اچھا؟ لیکن کویت میں کتنا تیل ہے ہمیں بھی تو پتہ چلے؟ اس پر پانڈو بولا کہ کویت کے پاس دنیا کے تیل کا آٹھ فیصد حصہ موجود ہے، یعنی کویت ایک کھرب بیرل سے زیادہ تیل کے ذخائر کا مالک ہے،کویت اوپیک کا اہم رکن ہے اور اوپیک میں تیل پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔

پانڈو کی بتائی ہوئی تفصیل خاصی حد تک چندو کے سر پر سے گزر گئی تاہم ایک بات اسے ضرور سمجھ میں آگئی کہ ذخائر کی مقدار ٹھیک ٹھاک ہے۔چندو بولا کہ عمران خان کے تو مزے آگئے، تیل نکالنے کا سہرا اب وہ اپنے سر باندھ لے گا۔پانڈو بولا سہرا تو دولہے کے سر ہی بندھتا ہے،اس وقت جو دولہا ہے سہرا بھی اسی کے سر پر بندھے گا،اور کپتان نے بہرحال اس کام کو تیزی سے آگے ضرور بڑھایا ہے۔نیک کام چاہے کسی کے ہاتھ سے بھی ہو، سراہا جانا چاہیئے،اور جنہوں نے اس کی شروعات کیں ، انہیں بھی اس کاکریڈٹ ملنا چاہیئے۔چندو سر ہلا کر بولا یہ بات تو تم نے ٹھیک کہی۔۔

اتنی دیر میں چندو اپنی چائے کا کپ ختم کرچکا تھا۔اس کی نگاہیں آس پاس گاہکوں کو ڈھونڈرہی تھیں۔وہ دل میں وہ سوچ رہا تھا کہ آج تین چار سو روپے کی بونی نہ ہوئی صبح کیلئے ناشتہ اور دودھ گھر لیکر جانا مشکل ہوجائے گا،جبکہ زبان سے وہ اب وہی گانا ہلکے ہلکے گنگنا رہا تھا ، ”سر تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے،سوجا پیارے تیل لگا کر، کاہے گھبرائے، ہو کاہے گھبرائے“ پانڈو گانے کی ٹانگ ٹوٹتے دیکھ کر پھر مسکرا رہا تھا۔اچانک اس کے دل میں نہ جانے کیا آئی، چندو سے بولا ، یار سر بہت دُکھ رہا ہے، ایک شاندار سی چمپی کر ہی دے۔یہ سن کر چندو کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دوڑ گئی۔چندو اب اپنے مضبوط ہاتھوں سے پانڈو کے سر کی مالش کررہا تھا، جبکہ آنکھیں بند کئے پانڈو کوایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہو۔
.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں