سوشل میڈیا پرلاپتہ ایس طاہرخان داوڑکی مبینہ ہلاکت کی خبر اورتصاویرظاہر ہوئیں اور آن کی آن میں وائرل ہوگئیں۔
طاہر خان ستائیس اکتوبر کو اسلام آباد کے علاقے ایف ٹین میں چہل قدمی کرتے ہوئے لاپتہ ہوگئے تھے۔
اگلے روز گھروالوں کو طاہر خان کا ایس ایم ایس ملا ، جس کے الفاظ تھے کہ وہ خیریت ہیں اور جلد گھر پہنچ جائیں گے۔
تازہ اطا عات کے مطابق طاہرخان کو افغانستان میں قتل کیا گیا، جن کی لاش کے پاس سے قاتلوں کے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک دھمکی آمیز پیغام بھی ملا ہے۔اگریہ اطلاعات درست ہیں تو یہ ایک افسوسناک امر ہے۔پاکستان اورافغانستان کے سرکاری زرائع اس معاملے پر اب تک خاموش ہیں۔
ماضی میں طاہر خان پر دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں،جن میں سے ایک حملہ خود کش تھا۔قومی اعزازات کے حامل طاہرخان کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہےکہ وہ دہشت گردوں کے مستقل نشانے پر رہے ہیں۔
دوسری طرف داوڑ قبیلے کے حلقے اس معاملے کو کئی دیگر پہلوؤں سے بھی دیکھ رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ طاہرخان اپنے فرائض منصبی کے حوالے سے گزشتہ دنوں پریشانی کا شکار تھے۔اور بقول ان کے، انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا تھا کہ ذلت کی نوکری سے چھٹکارہ بہترہے۔
طاہر خان کی لاش کا افغان علاقے سے ملنا کئی سوال کھڑے کررہا ہے۔اسلام آباد سے اغوا ہونے والا شخص سرحد پار کیسے منتقل کیا گیا؟کیا دہشت گردوں کا نیٹ ورک اب بھی اس قدر منظم ہے کہ وہ کسی کو اغوا کرکے باآسانی کہیں بھی ، حتیٰ کہ بیرون ملک بھی منتقل کرسکتے ہیں؟کیا افغان سرحد پر اب بھی ایسے راستے موجود ہیں جہاں سے مشتبہ افراد کی نقل و حمل جاری ہے؟کیا دہشت گرد دارالخلافے میں کسی بڑی کارروائی کی اہلیت رکھتے ہیں؟
حالیہ دنوں میں اطلاعات یہ بھی ہیں کہ افغان اور بھارتی انٹلیجنس پاکستان میں دہشت گردی کے نئے محاذ کھولنے کی سازش میں مصروف ہیں۔مولانا سمیع الحق کے قتل کو بھی اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ایس پی طاہرخان داوڑ کا قتل بھی پاکستانی ریاست کیلئے چیلنج بن کرسامنے آیا ہے۔عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے اس سازش اور اس کے کرداروں کو فوری طورپرسامنے لانا ضروری ہے۔