سچ بولو تو سب کو برا لگتا ہے۔۔اسی لئے میں نے کافی عرصہ پہلے جھوٹی کہانیاں لکھنا شروع کیں۔۔ایسے ایسے جھوٹ لکھےکہ لوگ دنگ رہ گئے،،کہانیوں کی خوب واہ واہ ہوئی۔پڑھنے والوں کا کہنا تھا کہ میں ان کے دل کی بات کرتا ہوں ۔۔اور قلم کاری کا “حق” ادا کرتا ہوں۔۔احبابوں کی دلچسپی دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ لوگوں کو بس یہی مال چاہیئے۔۔
ہمارے لوگ یہ تو مانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ جھوٹ برداشت کرنا بھی غلط بات ہے۔لیکن جھوٹ پھیلانا شاید کوئی نیکی کا کام ہے ۔ یقین نہ آئے تو آج کل جو چل رہا ہے اس پر غور کرلیں۔بغیر تصدیق کے بات آگے پہنچا دینا شاید اب بری بات نہیں رہی۔۔کوئی بھی ایسی خبر،جو ہم تک پہنچتی ہے اسے آگے بڑھانے کا فریضہ ہم ایسے انجام دیتے ہیں۔جیسےعید پر لوگ گھر گھرگوشت بانٹتے ہیں۔
جھوٹ پھیلانے کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ جھوٹ پر یقین کرلینا بھی ہے۔کچھ روز قبل ایک دوست کا واٹس ایپ پرگھبرایا ہوا میسیج آیا کہ کیا پانچ ہزار کے نوٹ ختم ہورہے ہیں۔ہم نے کہا کہ ابھی ملک کے حالات اتنے اچھے نہیں ہوئے،بلکہ ہمیں توعنقریب دس ہزار روپے کا نوٹ بھی آتا نظر آرہا ہے۔لیکن ہم نے الٹا اس سے پوچھ ڈالا کہ لگتا ہے تم نے پانچ ہزار والے نوٹ گھر میں رکھے ہوئے ہیں۔وہ سٹپٹا سا گیا اور بولا کہ نہیں،بس سوشل میڈیا پر خبر دیکھی تو کنفرم کرنے کیلئے آپ کو میسیج کردیا۔میں نے کہا کہ آئندہ جب ٹی وی پر خبر دیکھو تو کنفرم کرنے کیلئے میسیج کیا کرو۔سوشل میڈیا پر تو بس “ہرمال چائنا” ہے۔۔
پچھلے دنوں ایک دوست نے خوشی خوشی خبرسنائی کہ پاکستانی نژاد امریکی ارب پتی شاہد خان نے ڈیم فنڈ کے لیے ایک ارب ڈالرعطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ہم نے کہا کہ یہ خبرحلق سے نیچے نہیں اتر رہی۔۔وہ بولا کنفرم ہےسوشل میڈیا پر ہر بندہ یہی خبر شیئر کررہا ہے۔ہم نے کہا کہ “میں اس کی خبر کی تصدیق کئے بغیر ہی اس کے غلط ہونے کی تصدیق کرتا ہوں” ۔ وہ بولا کہ آخر اتنے یقین سے کیسے؟ ہم نے جواب دیا کہ ایک ارب ڈالر کا فیگرہی یہ رائے دینےکیلئےکافی ہے۔
اسی طرح عمران خان کے بنی گالہ کی ایک سو پچاس کنال اراضی ڈیم فنڈ میں دینے کی خبر پربھی ساتھیوں نےتصدیق چاہی۔ہم نے کہا کہ یہ بات بھی حلق سے نہیں اتر رہی۔۔
سوشل میڈیا پراکثرایسی خبریں وائرل ہوتی ہیں کہ کامن سینس کے تقاضوں پر بھی پورا نہیں اتر رہی ہوتیں۔۔لیکن پھر بھی ان پر ڈسکشن اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ وہ خبریں وائرل ہوجاتی ہیں۔کچھ روز قبل یہ خبر پھیلی کہ نوازحکومت نے ایک زمانے میں شیخ رشید کو ان کی والدہ کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی۔یہ خبر بھی من گھڑت تھی۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے لکھا تھا کہ ہمارے ہاں اطلاعاتی آلودگی بھی ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔۔اس بات کے کئی پہلو تھے۔لیکن جھوٹی خبروں کا پھیلنا بھی اسی میں سے ایک پہلو ہے۔اور یہ آلودگی بھی آج ذہنوں کو اسی طرح متاثر کررہی ہے،جیسے فضائی یا صوتی آلودی متاثر کرتی ہے۔اور تاحال اس کی روک تھام کا بندوبست بس اتنا ہی ہوسکا ہے،جتنا ڈینگی کی روک تھام کا ہوتا ہے۔۔