اصول کیا ہوتے ہیں ۔نظریہ کیا چیز ہے ۔ ملکی منظر نامے پر نظر ڈالی تو سر چکرا کے رہ گیا ۔ ماضی میں کس نے کیا کہا ۔ مستقبل کیسا ہوگا ۔کوئی پرواہ نہیں ۔دائیں بازو کی جماعتوں اور روشن خیالی کے لبادے میں خود کو لبرل،سیکیولر قرار دینے والوں میں تفریق کریں تو پیپسی اور کوکاکولا سے زیادہ فرق نہیں۔ یعنی عام گلاس میں دونوں مشروب یکساں ذائقہ دیں گے ۔ حالیہ ملکی تاریخ میں ملا ،لبرل اتحاد کی ایک نہیں کئی مثالیں موجود ہیں ۔آئیے چند ایک پر نظر ڈالیں ۔۔ دوہزار سات میں شہر اقتدار شورش کا شکار ہوا ۔ چلڈرن لائبریری پر قبضے کے بعد لال مسجد والے پورے نظام کو تاراج کرنے پر بضد تھے ۔ ڈنڈا بردار افراد نے بیک وقت جج اور جلاد کا رول نبھایا ۔ پولیس اہلکار تو کیا رینجرز کا کرنل بھی ان کے غضب سے نہ بچ سکا ۔ مذاکرات کے کئی دور ہوئے ۔ مولانا حضرات کو منانے کیلئے بڑا زور لگایا گیا مگر نتیجہ صفر ۔۔ ملک بھر سے اس گروہ کیخلاف ایکشن کی آوازیں زور پکڑنے لگیں ۔ ایک نامور صحافی نے صدر مشرف کو آپریشن کی صورت میں بھرپور حمایت کی یقین دہانی کرائی ۔لیکن یہ کیا آپریشن سائلنس شروع ہوتے ہی سب الٹ ہوگیا ۔
عاصمہ جہانگیر سمیت وہ لبرل طبقہ جو کل تک حکومتی رٹ کی دہائی اور ایکشن کا مطالبہ کررہا تھا اب بات سے مکر گیا ہے ۔تنقیدی توپوں کا رخ اب پاک فوج کی جانب ہے ۔ یکا یک انتہا پسند نہتے اور معصوم جبکہ سیکیورٹی اہلکار ظالم و جابر بن گئے۔ غور سے دیکھیں تو یہاں دائیں بازو کی جماعتیں اور بائیں بازو کے نام نہاد علمبردار ایک پیج پر ہیں ایسا ہی اتفاق رائے افتخار چوہدری کی معزولی پر دیکھا گیا۔کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات سے بالکل چشم پوشی کی گئی ۔ یہاں بھی لبرلز اور دائیں بازو والوں کے ہاتھوں میں ہاتھ تھے ۔ سارے معاملے کو اتفاق قرار دے کر سر جھٹکا اور آگے بڑھے۔ دوہزار آٹھ ملک میں “جمہوریت” لایا اور دہشتگردی کی لہر سونامی بن کر ابھری۔ کراچی تا خیبر، خودکش حملوں،بم دھماکوں سے گونج اٹھے ۔ انتہاپسندی کیخلاف خود کو آہنی دیوار کہنے والی پیپلز پارٹی نے سوا ت صوفی محمد کو سونپ دیا ۔ شمالی وزیرستان پر شدت پسند پوری طرح قابض ہوگئے۔ اسلام آباد ٹی ٹی پی کی پہنچ سے گھنٹوں کی دوری پر تھا ۔ ایسے میں ایک ویڈیو لیک ہوئی جہاں شدت پسند گھر سے باہر نکلنے پر خاتون کو کوڑے مار رہے تھے ۔(دائیں بازو کی جماعتیں،ن لیگ اور پی ٹی آئی اب بھی ٹی ٹی پی کے دفاع میں پیش پیش ہیں) گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنے کیلئے پھر فوج طلب ہوئی ۔
زوردار لڑائی اور قربانیوں کے بعد سوات پاکستان کی عملداری میں آگیا۔ ایسے میں ایک ویڈیو سامنے آئی فوجی اہلکار ایک بزرگ شہری کو پیٹ رہا ہے ۔ واقعے کی تصدیق ،وجوہات اور محرکات جانے بغیر پوری فوج پر لے دے شروع کردی گئی ۔اس ویڈیو کو فوری فراموش کردیا گیا جہاں طالبان ایک خاتون کو کوڑے لگا رہے تھے معاملے پر نام نہاد لبرلز عمران خان اور نوازشریف جیسے سیاسی قائدین ایک پیج پر ہیں۔ 2013 میں پی پی کی چھٹی ہوئی ۔عام انتخابات کے بعد نوازشریف نے ایکبار پھر منصب حکومت سنبھالا ۔عمران خان کی تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی خان بنی ۔ ٹی ٹی پی کو کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر منانے کی پرانی فرمائش کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا ۔واضح رہے کہ سوات آپریشن کے بعد حزب اختلاف شمالی وزیرستان آپریشن کی شدت سے مخالف تھی۔ خیر مذاکرات سے قبل اور مذاکرات کے دوران ملک میں دھماکے اور حملے جاری رہے۔ اس دوران جنرل راحیل شریف پاک فوج کی کمان سنبھال چکے ہیں۔کراچی ائیرپورٹ حملے کے بعد ریاست کا صبر جواب دے گیا اور پھر آغاز ہوتا ہے آپریشن ضرب عضب کا ۔ دہشتگردوں پر وار ہوتے ہی ملک کے طول وعرض میں موجود نام نہاد لبرل طبقہ چیخ پڑا ۔ عاصمہ جہانگیر نے ایکبار پھر آپریشن کی مخالفت کردی ۔
ادھر دم توڑتی ٹی ٹی پی کی جگہ پی ٹی ایم نے جنم لیا ۔ دہشتگردی کیخلاف آپریشن کو پشتون نسل کشی کا نام دیا اور یوں تمام لبرلز نے پھر فوج پر انگلی اٹھادی واضح رہے کہ دائیں بازو کی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی اور جے یوآئی (ف) کسی صورت ٹی ٹی پی کیخلاف طاقت کے استعمال کی حامی نہیں تھیں ۔ یہاں بھی نام نہاد لبرلز اور دائیاں بازو ایک پیج پر آگئے ۔ فوج پر دونوں جانب سے الزام لگتے رہے ۔ طاہر القادری نے سیاست میں انٹری دی ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا مگر کسی نام نہاد لبرل کی حمایت سامنے نہ آئی دائیں بازو والے بھی چپ رہے ۔ وجہ یہ کہ طاہر القادری کو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے ۔ لہذا ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کی داد رسی نہ کی جائے۔ سو دھرنے کی بھی حمایت نہ کی گئی ۔سارے طریقہ کار کو ماورائے آئین،خلاف قانون قرار دیدیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کی زیر قیادت ایک دھرنا ان دنوں اسلام آباد جاری ہے ،شہریوں ،حکومت اور ملکی معیشت کو وہی مشکلات درپیش ہیں جو دوہزار چودہ میں تھیں ۔دیکھاجائے تو اس بار دھرنے کا ہدف فوج ہے ۔ لہذا لبرلز اور دائیں بازو والوں کو ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ دھرنے میں خواتین کی نمائندگی ہو یا نہ ہو ہمیں اس سے کیا۔! ماضی میں ویلنٹائنز ڈے کی حامی ماروی سرمد اور سخت مخالف جےیوآئی ( ف) رہنما حافظ حمد اللّٰہ شیروشکر ہیں ۔
فوج کی مخالفت میں محترمہ حافظ صاحب کے انتہائی قابل اعتراض بیان کو بھی بھول گئیں ۔ اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد نام نہاد لبرل قووتوں اور دائیں بازو والوں میں موجود خاموش اتحاد پر روشنی ڈالنا تھا ۔ جو نتائج اور نظریات سے قطع نظر فوج کی مخالفت برائے مخالفت اور تنقید برائے تنقید پر آمادہ ہے ۔ سوچتا ہوں کہ کل کو اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد سے ویلنٹائنز ڈے شروع ہوتا ہے تو کیا فوج کی مخالفت میں ماروی سرمد یوم محبت کی مخالف کریں گی یا نہیں؟۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لبرل طبقہ دھرنوں کے سبب کرسمس منانے سے باز رہے ۔ خیر اگر آپ کو دوبروں میں سے انتخاب کرنا ہو تو یقین رکھیں کے آپکا منتخب برا کسی صورت اچھا نہیں بنے گا ۔ ۔۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ آزادی مارچ کی کامیابی یا ناکامی کی صورت عام آدمی کے مسائل جوں کے توں رہیں گے ۔ مہنگائی میں مزید اضافہ تو ممکن ہے تاہم کمی کا کوئی امکان نہیں۔ لہذا بہتر ہوگا کہ کسی فرد یا ادارے پر آندھی تنقید کے بجائے معاملہ فہمی سے کام لیا جائے ۔۔ تحریر کا اختتام قائد ملت کے آخری جملے سے کرتا ہوں ” خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے”