زندہ ہاتھی لاکھ کا اورمرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا۔۔ اس کہاوت کے پیچھے یہ مطلب کارفرما تھا کہ جب ہاتھی کی لاش کا سودا ہوتا ہےتو اس کے قیمتی دانتوں ، ہڈیوں ، چربی اور کھال کے بدلے خوب آمدنی ہوجاتی ہے۔اور ہاتھی کا مرنا نقصان کا سودا نہیں رہتا۔
اوراب ایک جدید محاورے کا بھی ذکرکرتے ہیں،وہ یہ ہے کہ، لاش زندہ ہوگئی، اس کا مطلب تو سیدھا سادہ سا اور واضح ہے۔یعنی، کوئی چلتی پھرتی مصیبت گلےپڑگئی، لیکن اس محاورےکا پس منظر،ماضی میں لکھے گئےبچوں کے ایک سنسنی خیزناول،لاش زندہ ہوگئی، سےجاملتا ہے۔
چالیس سال قبل لکھے گئے سپرہٹ ناول،لاش زندہ ہوگئی کے خالق اے حمید مرحوم تھے،اس ناول کی کہانی یہ تھی کہ کچھ سماج دشمن عناصراورشرپسند قسم کےسائنسدان، مختلف لاشوں کےاعضا جوڑکرایک جسم تیارکرتے ہیں۔اور پھرخاص سائنسی تجربے کے زریعے اس جسم کو زندہ کردیتے ہیں۔
وہ لاش زندہ ہونے کے بعد جب اٹھ کربیٹھتی ہے تو وہیں سےخوف، سسپنس اور ایکشن سے بھرپور اُس کہانی کا آغازہوجاتا ہے، جسے پڑھ کر ہمیں رات میں ہی نہیں بلکہ دن میں بھی ڈر لگنے لگتا تھا۔
یہاں میں یہ واضح کردوں کہ،راقم نے اپنے اس آرٹیکل کے ٹائٹل کیلئے بھی اے حمید کی وہی کتاب،لاش زندہ ہوگئی، کا سرورق استعمال کیا ہے۔
اے حمید کی اس عظیم تخلیق کتاب کو ایک طرف رکھتے ہیں ، آتے ہیں اب اصل بات کی طرف۔
ان محاوروں کو اس مضمون میں بلاوجہ بیان نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ جڑے ہیں ایک بہت ہی خاص خبر سے۔۔
وہ خبریہ ہے کہ کراچی میں ایسے جعلی اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا ہے جو ایک مردے کے نام پرتھے۔ان چاراکاؤنٹس کے زریعے چارارب اورساٹھ کروڑروپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔
شادمان ٹاؤن کا رہائشی محمد اقبال انصاری 9 مئی 2014 کو کراچی میں انتقال کرگیا تھا، اس کی تدفین سخی حسن قبرستان میں ہوئی تھی۔ اقبال انصاری کی موت کے بعد اس کے نام سے سمٹ بینک اور سندھ بینک سمیت 3 بینکوں میں 4 اکاؤنٹس کھولے گئے اور ان بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 4 ارب 60 کروڑ کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔
یہ اکاؤنٹس کون آپریٹ کررہا تھا؟
سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم جے آئی ٹی اسی بات کی تفتیش کررہی ہے۔جے آئی ٹی نے تفتیش کا آغاز 29 اکاؤنٹس سے35 ارب روپےبیرون ملک منتقلی کی تفتیش سے کیا تھا،اس سلسلے میں آصف زرداری اورفریال تالپورسےبھی سوالات کئےجاچکے ہیں۔جبکہ اومنی گروپ کے سربراہ انورمجید ،بینکرحسین لوائی سمیت سندھ بینک اورسمٹ بینک کےمتعدد افراد زیرحراست ہیں
۔تاہم اس مہا جعلسازی کی تفتیش آگے بڑھی تو پتا چلا کہ معاملہ صرف 29اکاؤنٹس اور35ارب روپے کی منی لانڈرنگ تک محدود نہیں،بلکہ اب نئے جعلی اکاؤنٹس بھی سامنے آرہے ہیں۔
گندا ہے پر دھندا ہے یہ ۔۔
دوستو:کچھ لوگوں کا دھندا ہی کرپشن ہے۔۔آپ ان سےکوئی اور کام کروا ہی نہیں سکتے۔انہیں اس گند کی عادت پڑچکی ہے۔اور یہ گند انہوں نے اس قدر پھیلادیا ہے، کہ ایک وادی اور لاکھوں، کروڑوں لوگ اس سے آلودہ ہوچکے ہیں۔
اے حمید مرحوم آج زندہ نہیں ہیں۔ورنہ شاید یہ میگا کرپشن انہیں بھی کسی ناول کیلئے نیا آئیڈیا دے جاتی،جیسے مریخ سے کوئی بلا زمین پرآتی ہو اوراس پیمانے کی کرپشن کرواتی ہو۔کیونکہ کبھی کبھی تو واقعی یہ ’’میگا کرپشن‘‘ انسانوں کا کام معلوم نہیں ہوتی۔
—————————
(شعیب واجد)