روزنامہ نئی بات میں پاک سرزمین پارٹی کے جنرل سیکریٹری محترم رضا ھارون صاحب کا آرٹیکل ’نیا کراچی ۔ نیا فارمولا!‘ شایع ہوا ھےاس آرٹیکل میں رضا ھارون صاحب نے جو کچھ لکھا ھے اس کو کچھ دیر اپنی سیاسی وابستگی کو ایک طرف رکھ کر صرف ایک شہری کی نظر سے پڑہا جائے تو سمجھنے میں آسانی ھوگی۔ پاکستان بننے سے لے کر اب تک اس ملک بلخصوص سندھ کی سیاست میں جو کچھ ھوتا رہا ھے وہ سب کے سامنے ھے لیکن اگر ماضی میں رہنا اور انہی روایتی باتوں کوپکڑ کر بیٹھ جائیں تو یے ہمیں مزید پیچھے دھکیلنے کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتا
اب اس بات کا تعین ھونا لازم ھے کے جب تک آئین پاکستان پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا اور انسانی بنیادوں پر صوبے بھر میں بسنے والے شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کی جائیں۔ لیکن اس ملک کے سیاسی نظام کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ھے کے ملک کی اکائیاں (صوبے) وفاق کو کسی جلاد سے کم سمجھنے کی روادار نہیں ہیں جوکہ کسی حد تک درست بھی ھے اور اسی تناظر میں صوبائی خودمختاری کے لیے اٹھارویں ترمیم کا دفاع کیا جاتا ھے اور اصولاً ایسا ھونا بھی جاہیے کے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے ذریعے پاکستان کی تمام اکائیوں کو وسائل ملنے چاہیں لیکن اس کے بعد صوبوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ھے کے وہ صوبے میں موجود تمام اضلاع کے اندر وسائل کی تقسیم کو یقینی بنائیں اس کے لیے جس طرح وفاق سے قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے صوبوں کو وسائل فراہم کیے جاتے ہیں اسی طرح صوبوں کے اندر صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے تمام اضلاع کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل فراہم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ھے سندھ میں آخری صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ 2007 میں جاری کیا گیا تھا جب ارباب غلام رحیم وزیراعلیٰ سندھ تھے اس کے بعد نئے انتخابات کے نتیجے میں نئے دور کا آغاز ہوا اور اقتدار کے 5 سال بغیر صوبائی مالیاتی ایوارڈ جاری کرنے کو شاید ضروری نہیں سمجھا گیا اور 2013 میں نئی حکومت آئی دور کے اندر 2013 سے 2016 تک بھی کچھ نہیں ہوسکا جبکہ اس بار صوبے میں ًپیپلز لوکل گورنمینٹ ایکٹ 2013 منظور کیا جا چکا تھا اور سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے راہ ہموار ہوچکی تھی لیکن صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ جاری کرنا شاید اس وقت تک ترجیحات میں شامل نہ تھا بلآخر صوبائی حکومت کو یے خیال آ ہی گیا کے جس طرح ہم وفاق سے وسائل کی فراہمی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اسی طرح ہمیں صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا اجراء بھی کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا کوئی جامع اور متفقہ فارمولہ وضع کرنے کے لیے 24 نومبر 2016 کو ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اس کمیٹی میں اس وقت صوبائی اسیمبلی کی تمام جماعتوں کے ممبران (جو مالی معاملات اور وسائل کی تقسیم کی سمجھ بوجھ رکھتے تھے) کو شامل کیا گیا .
صوبائی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کا فارمولہ وضع کرنے کے اس کمیٹی میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاھ جو کے وزیر خزانہ بھی تھے وہ اس کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے اور اس وقت کے وزیر بلدیات جام خان شورو کو اس کمیٹی کا کو چیئرمین مقرر کیا گیا جب ایم کیو ایم (پاکستان) سے فیصل سبزواری، پاکستان تحریک انصاف سے ثمر علی خان، پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) سے نند کمار گولکانی بطورممبر شامل کیے گئے اس وقت اس کمیٹی کو بھتر بنانے اور طئے ہونے والے فارمولے کو غیر متانازعہ بنانے کے لیے 2 میئر صاحبان (میئر کراچی اور میئر سکھر) اور 2 ضلعہ چیئرمین (ضلعہ چیئرمین عمرکوٹ اور ضلعہ چیئرمین جیکب آباد) کو بھی اس کمیٹی میں بطور ممبر شامل کیا گیا اور اس کے بعد یے بھی زیر بحث رہا کے نجی شعبے کی نمائندگی بھی انتھائی اہم ھے جس کے بعد پرائیویٹ سیکٹر سے اقبال حسین شاھ جو کہ سابق ڈائریکٹر سندھ لوکل گورنمنٹ بورڈ بھی ہیں اور اشرف وسطی کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیا گیا اور بیوروکریسی سے صوبائی سیکریٹری خزانہ، بلدیات اورپلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کو شامل کر کے ایک بھترین کمیٹی تشکیل دی گئی
یے تو ماننا پڑے گا کے ان تمام ذہین لوگوں کی قابلیت پر کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ھے لیکن آج 24نومبر 2016 سے ہم 2020 میں بھی اس فامولے کا انتظار کر رہے رہیں ان ممبران میں سے کچھ تو 2018 کے انتخابات میں اسیمبلی ممبر بھی نہیں بن سکے لیکن ان کی جماعتوں سے متبادل ممبران نامزد ہونے تھے جو کہ نہیں ہوسکے رضا ھارون صاحب نے بلکل درست لکھا ھے کے مسائل کا حل تو نظر نہیں آیا البتہ انتظار فرمائیے کا لولی پاپ ضرور دیا گیا صوبہ سندھ کے لوگ 2016 سے 2020 میں بھی انتظار کر رہے ہیں شاید ان کے صبر اور برداشت کا پیمانہ بہت ہی عمدہ ھے لیکن یہاں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کے کیا صرف کمیٹی تشکیل دینے سے مسائل ہوسکتے ہیں اور اس کا واضع جواب ھے کے نہیں کمیٹی تشکیل کرنے بعد ان کی کاکردگی کو موئثر انداز میں دیکھنا اور نتائج حاصل کرنا حکومت کی اہم ذمہ داری ھے جس میں حکومت ناکام رہی پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو ذرداری نے حیدرآباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران فرمایا تھا کے اگر وفاق نے صوبے کے ساتھ زیادتی بند نہیں کی اور پیپلزپارٹی نے ہاتھ کھڑے کر لیے تو کل جیسے بنگلادیش بنا تھا تو آنے والے کل میں سندھو دیش بھی بن سکتا ھے تو میرا خیال ھے کے ان کو اپنی جماعت کے ساتھ بھی غور کرنے کی ضرورت ھے کے اگر صوبے کے اندر وسائل کی تقسیم منصفانہ نہیں ہوگی تو لوگ اس پر بھی اپنا ردعمل دینے کا حق رکھتے ہیں اور شاید وہ کسی کے بھی حق میں بہتر ثابت نہیں ہوگا