شکیبؔ جلالی (یکم اکتوبر 1937 تا 12نومبر 1966)

اصل نام سید حسن رضوی، یکم اکتوبر ١٩٣٤ء کو اترپردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ لیکن والدہ کی حادثاتی موت نے سید حسن رضوی کے ذہن پر کچھ ایسا اثر ڈالا کہ وہ شکیب جلالی بن گئے۔ انہوں نے ١٥ یا ١٦ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی جو لو دیتی تھی جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔ شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور آ گئے یہاں سے انہوں نے ایک رسالہ ” جاوید “ نکالا۔ لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ پھر ”مغربی پاکستان“ نام کے سرکاری رسالے سے وابستہ ہوئے۔ مغربی پاکستان چھوڑ کر کسی اور اخبار سے وابستہ ہو گئے۔
شکیبؔ جلالی، ١٢؍نومبر ١٩٦٦ء کو کم عمری میں ہی خودکشی کر لی۔

✦•───┈┈┄╌╌╌┈┈───•✦

۔۔ شاعر شکیبؔ جلالی کے منتخب اشعار ۔۔

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

کوئی بھولا ہوا چہرہ نظر آئے شاید
آئینہ غور سے تو نے کبھی دیکھا ہی نہیں

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر

وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں
پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے
کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا
میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا

وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہوا
رہتا ہے اپنے نور میں سورج چھپا ہوا

مریضِ غم کے سہارو کوئی تو بات کرو
اداس چاند ستارو کوئی تو بات کرو

غمِ الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا
آگ جب دل میں سلگتی تھی دھواں کیوں نہ ہوا

یہ جلوہ گاہِ ناز تماشائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے

دیکھیے ہم کو غور سے پوچھئے اہلِ جور سے
روحِ جمیل کے لیے حال زبوں بھی چاہئے

دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے

✧◉➻═════════➻◉✧
انتخاب : کامران مغل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں