ساتھیوں ۔۔ میڈیا میں رپورٹ نہ ہونے والے درجنوں قاتل ہر سال آزاد ہوجاتے ہیں۔۔یہ سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے ، ایک شاہ رخ جتوئی کی رہائی پر تم سب لوگ کیوں چراغ پا ہو؟
شاہ رخ کے باپ نے مقتول کے اہلخانہ کو تو منہ مانگا خون بہا دےدیا ہے ۔۔ لیکن اس ملک میں کتنے ہی شاہزیب ایسے بھی ہیں، جو تاریک راہوں میں مارے گئے، جن کی نہ خبر بنی نہ ان کے والدین کی کسی نے فریاد سنی ، نہ انھیں کسی سرمایہ دار یا وڈیرے نے کوئی پھوٹی کوڑی بھی دی۔
غریب کا بچہ مرتا ہے تو کوئی خبر نہیں بنتی، غریب آواز اٹھائے تو اس کے گھر میں ایک خون اور ہوجاتا ہے ۔۔ بیٹیاں اٹھا لی جاتی ہیں۔۔ ایک بیٹا کھونے والا غریب ہاری اکثر یہ سوچ کر خاموش ہوجاتا ہے کہ دوسرا بیٹے کی زندگی کیلئے اپنے آنسو پی جاؤں ، چیخ چیخ کر رونے کا دل چاہے تو اپنا ہی گلا پکڑ لوں کہ کہیں فریاد نہ کہلائی جائے اور فریاد غریب کا جرم نہ بن جائے۔
کوئی پوچھے شکار پور کے اس باپ سے جس کی بیٹی سات سال پہلے اغوا ہوئی، پریس کلبس پر احتجاج کرکے سنگل کالمی خبر بھی نہ بنوا سکا، نہ میڈیا کو اس کی فریاد میں کوئی کشش نظر آئی ، ایسے کتنے ہی باپ ہیں ۔۔ کتنی ہی بیٹیاں ہیں ، کتنے ہی شاہ زیب ہیں۔۔ اور تم سب لوگ ایک شاہ رخ جتوئی کو رو رہے ہو ؟
ارے اگر رونا ہے تو اس نظام پر رو ۔۔ اتنا رو کہ یہ نظام تمھارے آنسوؤں سے تربتر ہوجائے ۔ اور پھر جب آنسو کا سیلاب تھمے تو شاید زمین کچھ دھل چکی ہو۔۔