پاکستان میں ایک شاعر ایسا بھی ہے جس نے وقت کے فرعونوں کو بباہنگ دہل للکارا،اور بعد ازاں جب وہ انقلابی شاعرہم سے رخصت ہوگیا تو ان ہی فرعونوں کو لہک لہک کر اس کی شاعری بھی پڑھتے دیکھا گیا۔بات ہورہی ہے شاعر انقلاب ، دلِ بے تاب، کردار ِبے لچک، جناب حبیب جالب کی۔۔
حبیب جالب 28 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے، حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔اینگلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔
بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی،روزنامہ جنگ اور پھر لائلپور ٹیکسٹائل مل سے روزگار کے سلسلے میں منسلک ہوئے۔بعد ازاں مستقل لاہور میں رہائش اختیار کی۔
انہوں نے 15 سال کی عمر سے ہی مشق سخن شروع کردی تھی، ابتداء میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کر تے تھے۔ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے حبیب جالب کی شاعری آج محروموں کی آواز بن چکی ہے۔
ایوب خان اور یحیی خان کے دور متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960ء کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے کچھہ اشعار لکھے ”سرِمقتل” کے عنوان سے جو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليئے ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بہت خوبصورت شاعری کی۔
1962ء میں جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جذبات میں آگ لگا دی،
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
1974ء میں وزیر اعظم بھٹو نے انہیں حیدرآباد سازش کیس میں بند کر ادیا، اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی:
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
ضیاء الحق کے مارشل لا میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو بھی انہوں نے ضیالحق سے ہاتھ نہ ملایا۔
ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی۔ اس دور میں بدعنوانی اور غریبوں کے ساتھ ذیادتیوں پر بھی جالب دل گرفتہ تھے ۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی جن میں مس 56، ماں بہو اور بیٹا، گھونگھٹ، زخمی، موسیقار، زمانہ، زرقا، خاموش رہو، کون کسی کا، یہ امن، قیدی، بھروسہ، العاصفہ، پرائی آگ، سیما، دو راستے، ناگ منی، سماج اور انسان شامل ہیں۔
کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے وقار میں اضافہ کیا۔ ان کی وفات کے بعد 2008ءمیں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیازعطا کیا.
حبیب جالب 12 مارچ 1993 کو ہم سے جدا ہوگئے ۔انہیں لاہور قبرستان سبزہ زار اسکیم میں سپرد خاک کیا گیا۔