صرف پاکستان کے ہی حالات برق رفتاری سے کروٹ نہیں بدل رہے بلکہ دنیا ساری میں ہی حادثات و واقعات نے رفتار پکڑ لی ہے ۔ امریکہ کا آہستہ آہستہ تمام بڑے بڑے اتحادوں سے نکلنا ، صرف امریکہ کے معاشی اور دفاعی سکڑاؤ کی ہی طرف نہیں بلکہ “فرد کی انفرادیت سے لیکر لبرل اکانومی “کے نظریات کی بنیادوں میں تزلزل کی طرف اشارہ ہے ۔ امریکہ نے اب نیٹو ممالک سے کہہ دیا کہ وہ نیٹو کے لئیے اپنا فنڈنگ کا حصہ اپنے جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھایئں ۔ ان شارٹ ، ان اتحادوں کا بوجھ اٹھانے کے لئیے نہ امریکہ کے پاس پیسے ہیں اور نہ دفاعی اخراجات کو برداشت کرنے کی سکت ۔ اور ایسا لگتا ہے کہ G7 ممالک کے تجارتی اتحاد کے بعد اب دفاعی اتحاد نیٹو میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوجائیگا ۔ اور ترکی کا نیٹو سے نکلنا اسکا نقطہء آغاز ثابت ہو سکتا ہے ۔
جہاں ایک طرف امریکی اور یورپی اتحادوں میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے وہیں چین ایک سپر پاور کے طور پر خاموشی کے ساتھ اپنی پیش قدمیاں بڑھاتا جارہاہے ۔ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے ساتھ ہی ہمارے خطے کے معاملات میں بھی چین کا عمل دخل تیزی کے ساتھ بڑھا ہے ۔ چین اب افغانستان کے ساتھ ساتھ خطے کے کئی معاملات میں بھی امریکہ ، بھارت اور یورپی ممالک کو بھی آنکھیں بھی دکھا رہا ہے ۔ چین کا یہ پھیلاؤ صرف اسکی کرنسی یا معیشت کا ہی پھیلاؤ نہیں ہوگا بلکہ اس کے “ون پارٹی سسٹم اور گورننس سسٹم” کا بھی پھیلاؤ ہوگا ۔ اور پاکستان کا اس سے متاثر ہو کر تبدیلی کے عمل سے گزرنا ایک لازمی عمل ہوگا ۔
ایسا لگ رہا ہے عالمی منظرنامے پہ تیزی سے آنے والی تبدیلیاں پاکستان پر بھی اثرات مرتب کر رہی ہیں ۔ حیرت ہمارے ہاں کے ان دانشوروں پر ہے جو ہمیں ہر وقت دنیا بھر کے انقلابات کی کہانیاں سناتے رہتے ہیں ۔ وہ دانشور جو انقلابوں کی ہسٹری کو بلکہ پوری انسانی تاریخ کو بھی ، ہیگل کی ڈائی الیکٹزم سے لیکر مارکس کی کمیونزم تک ، آئیڈیاز یا نظریات یا معاشی نظاموں کی جنگ قرار دیتے ہیں ۔ انقلاب فرانس تو ہمارے ہاں کے ہر دانشور کو رٹا ہوتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے دانشوڑ ، پاکستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کا مطالعہ اس تناظر میں کیوں نہیں کر رہے ۔ وہ کیوں برسوں سے بر سرِ اقتدار دو بڑی پارٹیوں کی موجودگی میں ایک تیسری پارٹی کے ابھرنے کو حالات کا جبر اور وقت کا تقاضہ سمجھ کر قبول نہیں کر پارہے ۔ کیا آج کے اس سال ، ان تاریخوں میں پاکستان کے لئیے تاریخ کے ارتقائی اور جدلیاتی عمل میں فل اسٹاپ لگ گیا ہے ۔ جو ہمارے دانشوروں کو کچھ بھی بدلتا نظر نہیں آرہا ۔ اگر معاشرہ احتساب اور کرپشن سے پاک ہونے کی منزل کی جانب ایک زینہ بھی طے کررہا ہے تو کیوں ہمارے دانشوڑ ، قوم کا راستہ کھوٹا کرنے کے لئیے جمود کی قوتوں کے حق میں اپنا وزن رکھ رہے ہیں ۔ افسوس
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
یا پھر یوسفی صاحب کے بقول ۔ برسوں سے بالادست طبقات اور بالادست مغربی نظریات کے آگے جھکے جھکے جوڑ بند اکڑ کے رہ گئے ہیں کہ دیوتا فنا کے گھاٹ بھی اتر رہے ہیں اور یہ دانشوڑ سجدوں میں پڑے ہیں ۔
حالات کے بدلاؤ کی رفتار یہ بتا رہی ہے کہ اب غلاموں کے ہاتھ آقاؤوں کے خیموں کی طنابوں کی جانب طرف اٹھ رہے ہیں ۔ لیکن افسوس تاریخ کے اس اہم لمحات میں ہمارا دانشوڑ یا تو لاتعلق ہے یا پھر عوام کے مخالف کھڑا ہے ۔
اب سے چند سال ہہلے تک کیا ہم یہ سوچ بھی سکتے تھے کہ ۔۔کراچی میں جاری جبر کا عالم ختم ہوگا اور متحدہ کے بڑے بڑے رہنما لوگوں کی تھوڑیوں پہ ہاتھ رکھ کر ووٹ مانگ رہے ہونگے ۔ اٹھاسی کے انتخابات کے دھندھلے سے مناظر یاد ہیں اسوقت یہ سارے سورما اس طرح گلیوں میں نظر آۓ تھے ۔ لیکن اب یہ حالت ہے کہیں مصطفیٰ کمال کو اورنگی میں انڈے پڑتے ہیں تو کہیں فاروق بھائی کی کلاس ہوتی ہے ۔ جنہوں نے کبھی کسی دوسری پارٹی کا جھنڈا شہر میں لگنے نہیں دیا وہ آج اپنے لئیے لیول پلئینگ فیلڈ کی بھیک مانگ رہے ہیں ۔
۔۔ ایک زرداری سب پہ بھاری کی حقیقت کھل کر سامنے آجائیگی کہ زرداری صاحب پیپلز پارٹی کو کتنے میں پڑے ۔ لیاری میں بلاول کی ریلی کا پتھروں سے استقبال یہ بتاتا ہے کہ یہ سودا پیپلز پارٹی کو بہت مہنگا پڑا ۔
۔۔ پنجاب میں جسطرح سے شیر بلی بنا اور لوہے کے چنے ، چنے کی دال ثابت ہوۓ یہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ اور اس میں کسی مخالف کا کوئی کمال نہیں ، ن لیگ کے اپنے اندرونی تضادات کا یہ لازمی نتیجہ تھا ۔
۔۔ پورے ملک میں ان نمائیندوں کی عوام کے ہاتھوں جو درگت بن رہی ہے وہ اس طرح سے سوشل میڈیا کی مدد سے پورے ملک میں اسطرح پھیل جائیگی کہ ٹی وی چینلز کے لئیے اس طرح کی خبریں چھپانا مشکل ہو جائیگا ۔
۔۔ گو کہ اس دفعہ بھی انتخابات میں مذہب سے لیکر جذبات تک استحصال کیا جارہا ہے ۔ مذہبی بنیادوں سے لیکر شہادتوں تک اور آصفہ اور بلاول کے پہلی دفعہ ووٹ مانگنے کے نعرہ سے لیکر طبیعتوں کی ناسازی کی خبریں سنا کر جذبات کو ابھارا جا رہا ہے ۔ لیکن سوشل میڈیا کے مختلف زرائع سے معلومات کے مل جانے سے اب سارے ہتھیار بھی کند ہوتے جارہے ہیں ۔
۔۔
عوامی شعور کی اس تبدیلی کی لہر کو دیکھتے ہوۓ اب تو اداروں کو بھی اپنے راستے پر رہنا ہوگا کیونکہ عوام کا جو ہجوم سیاستدان کو گھیر سکتا ہے وہ آج نہیں تو کل جھنڈے والی گاڑیوں کو بھی روک سکتا ہے ۔