محترم وزیراعظم صاحب کے یہ الفاظ ہم نے بارہا سنے لیکن ان الفاظ کا مخاطب کون تھا یہ اب سمجھ آرہا ہے۔ ابتدامیں یہ سن کے لگتا تھا کہ شاید یہ الفاظ ان کرپٹ سیاستدانوں کے لئے ہیں جنہوں نے اس ملک کو لوٹا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ الفاظ اس غریب ملک کے غریب عوام کے لئے تھے۔
جناب وزیراعظم صاحب نے عوام سے ووٹ اس لئے لیا تھا کے وہ اس ملک سے لوٹی گئی دولت واپس لائےں گے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دلوائیں گے۔ لیکن بادی النظر میں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سزا وہ اس ملک کی عوام کو دے رہے ہیں۔الیکشن سے پہلے تک ہر چیز پہ ان کی نظر تھی کہ پیسہ کہاں ہے اور مجرم کون ہے، لیکن پھر ایسا کیا ہو رہا ہے کہ مجرم سامنے ہیں لیکن ایک دھیلے کی ریکوری نہیں ہو سکی ہے اور سارا کا سارا بوجھ غریب عوام کے اوپر ڈال کیا گیا ہے۔ٹیکسس کی بھرمار سے یہ قوم جو پہلے ہی پریشان حال تھی اب مزید پریشان ہو گئی ہے۔ بجلی ، گیس جو پہلے نایاب تھی، اب وہ نایاب ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگی ترین بھی ہو گئی ہے۔
کیا فائدہ ایسے احتساب کا جس میں نقصان صرف عوام کا ہی ہو رہا ہے۔ایک پیسہ واپس نہیں آرہا او ر زور سارا عوام پہ کہ ٹیکس دے۔اس ملک کی اشرافیہ کتنا ٹیکس دیتی ہے کبھی کسی نے یہ بھی دیکھا ہے؟
ہم نے اکثر یہ بھی سنا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ واقعی ملک کے وسیع تر مفاد میں چند فیصلے کئے جائیں۔
تمام صوبائی اور وفاقی ممبران کے تمام تر الاؤنسس ختم کر دئے جائیں، جب قوم یہ سزا بھگت رہی ہے تو ان کا بھی فرض ہے کہ اس میں عوام کا ساتھ دیں۔
تمام وفاقی اور صوبائی بیورو کریسی کے بھی تمام تر الاؤنسس ختم کر دئے جائیں۔
جو عیاشیاں ان لوگوں کو حاصل ہیں اگر صرف وہی ختم کر دی جائیں تو اس ملک کو کسی قرضے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اور اب وقت آگیا ہے کہ ان لوگوں کو رلایا جائے جن کو واقعی میں رلانے کی ضرورت ہے، ہر بار عوام کو رونے پہ مجبور نہ کیا جائے ورنہ جس دن عوام نے رلایا تو کوئی آنسو پونچھنے والا نہیں ہوگا۔