نام سیّد محمد مہدی، تخلص رئیسؔ اور عرفیت اچھن تھی۔ ۱۲؍ستمبر۱۹۱۴ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔۱۹۱۸ء میں مکتبی تعلیم شروع ہوئی۔ان کی تعلیمی عمر کا زیادہ حصہ مطالعہ میں گزرا۔ پہلا شعر ۱۹۲۴ء میں کہا۔ ادب وصحافت سے عملی تعلق کی ابتدا ۱۹۳۱ء میں ماہ نامہ ’’حیات‘‘ کی ادارت سے کی۔ متعدد اخبارات اور رسائل سے متعلق رہے۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں رئیس ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ تین سال تک وہ بہ حیثیت مدیر روزنامہ ’’جنگ ‘‘ کراچی سے وابستہ رہے۔ چالیس سال سے زیادہ روزنامہ ’’جنگ‘‘میں حالات حاضرہ پر روزانہ ایک قطعہ لکھتے رہے۔ ۲۲؍ ستمبر ۱۹۸۸ء کو کسی نامعلوم شخص کی گولی سے کراچی میں انتقال کرگئے۔ رئیس اکادمی کے زیر اہتمام ان کی تیس سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں پانچ مجموعے نظم وغزل کے شامل ہیں۔ نثری کتب کے موضوعات نفسیات ، مابعد النفسیات، ہپناٹزم، جنات، عالم برزخ، حاضرات ارواح، عالم ارواح، روحانیت اور فلسفہ بشریات ہیں۔ ان کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’الف‘‘، ’’پسِ غبار‘‘، ’’حکایات نے‘‘، ’’ملبوس بہار‘‘، ’’قطعات‘‘(اول ودوم)، ’’بحضرتِ یزداں‘‘، ’’نجمُ السحر‘‘، ’’آثار‘‘، ’’انا من الحسین‘‘۔ ۱۹۸۴ء میں حکومت پاکستان نے ان کے ادبی خدمات کے صلے میں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے قطعہ نگار شاعر تھے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق
رئیسؔ امروہی کے منتخب اشعار …
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
—
ہم نے اے دوست رفاقت سے بھلا کیا پایا
جوئے بے آب ہے تو میں شجر بے سایہ
—
ابھی سے شکوۂ پست و بلند ہم سفرو
ابھی تو راہ بہت صاف ہے ابھی کیا ہے
—
ڈھل گئی ہستئ دل یوں تری رعنائی میں
مادہ جیسے نکھر جائے توانائی میں
—
اپنے کو تلاش کر رہا ہوں
اپنی ہی طلب سے ڈر رہا ہوں
—
صدیوں تک اہتمام شب ہجر میں رہے
صدیوں سے انتظار سحر کر رہے ہیں ہم
—
پہلے یہ شکر کہ ہم حدِ ادب سے نہ بڑھے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا
—
اب دل کی یہ شکل ہو گئی ہے
جیسے کوئی چیز کھو گئی ہے
—
ہم اپنے حال پریشاں پہ بارہا روئے
اور اس کے بعد ہنسی ہم کو بارہا آئی
—
کس نے دیکھے ہیں تری روح کے رستے ہوئے زخم
کون اترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں
—
دل سے مت سرسری گزر کہ رئیسؔ
یہ زمیں آسماں سے آتی ہے
—
صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی
نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے
—
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
—
چند بے نام و نشاں قبروں کا
میں عزا دار ہوں یا ہے مرا دل
—
کل فقط گیسوئے برہم تھے نشان تشویش
آج دیکھا تو انہیں اور پریشاں پایا
—
کتنی مغرور ہے نسیمِ سحر
شاید اس آستاں سے آتی ہے
—
کہیں سے سازِ شکستہ کی پھر صدا آئی
بہت دنوں میں اک آواز آشنا آئی
—
رئیسؔ اشکوں سے دامن کو بھگو لیتے تو اچھا تھا
حضورِ دوست کچھ گستاخ ہو لیتے تو اچھا تھا
—
بتا کیا کیا تجھے اے شوق حیراں یاد آتا ہے
وہ جان آرزو وہ راحت جاں یاد آتا ہے
—
قلب پاکیزہ نہاد و دل صافی دے کر
آئینہ ہم کو بنایا ہے تو حیراں ہوں گے
—
دیارِ شاہد بلقیس ادا سے آیا ہوں
میں اک فقیر ہوں شہرِ سبا سے آیا ہوں
—
مقربین میں رمزِ آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی اپنے رازداں نکلے
—
اے دل شریکِ طائفۂ وجد و حال ہو
پیارے یہ عیب ہے تو بہ حدِ کمال ہو
—
جو زائرین حریم وفا ہیں ان کے لئے
نوید رحمت پروردگار لائی ہے
—
رئیسؔ ہم جو سوئے کوچۂ حبیب چلے
ہمارے ساتھ ہزاروں بلا نصیب چلے