“مار دیا ان ظالموں نے میری بچی کو. یہ سب قاتل ہیں میری فاطمہ کے. اگ ایسے ہی نہیں لگی بلکہ جان بوجھ کر میری بچی کو جلا کر مارا گیا ہے. میں ان سب کو عدالت میں لے کر جاؤں گی. ان سب سے اپنی بچی کے خون کا بدلہ لوں گی.
“فاطمہ کی ماں زرینہ دھاڑیں مار مار کر اس کے لاش کے پاس بیٹھی بین کر رہی تھی.
فاطمہ کی موت گیس کا سلینڈر پھٹنے سے ہوئی تھی اور اس کے ظالم سسرال والے اس کی لاش کو ماں باپ کے گھر چھوڑ گئے تھے. فاطمہ کی شادی کو اٹھارہ سال ہو چکے تھے اور اس کے تین بچے بھی ماں کی لاش کے سرہانے بیٹھے تھے.“یہ سب تو پہلے دن سے ہی میری بچی کو پسند نہیں کرتے تھے. جینا حرام کیا ہوا تھا میری بچی کا. اسے روز روز مارنا تو ان کا معمول تھا مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک دن میری بچی کی جان ہی لے لیں گے یہ سب. ” زرینہ کی دلخراش چیخیں آس پاس بیٹھی تمام خواتین کو بھی رونے پر مجبور کر رہی تھیں. ہر آنکھ اشکبار تھی اس جوان موت پر.
“ میری ہنستی مسکراتی بچی کے چہرے سے ہنسی چھین لی ان لوگوں نے. اس کے دن رات آنسوؤں سے بھرنے کےبعد بھی جب ان لوگوں کو چین نہ ملا تو آخرکار میری بچی کو جلا کر مار دیا. ایسا کون سا سکھ تھا جو میری بچی نے ان کو نہ دیا. ان کے جوتے کھائے، طعنے سہے، ان کی نوکر بن کر رہی پھر بھی میری بچی نے اف نہ کی مگر ان لوگوں کے سینے میں جلتی آگ آج میری بچی کے خون سے ہی بجھی. “
زرینہ کو کسی پل چین نہیں آ رہا تھا. وہ اپنی ہنستی مسکراتی بچی کی جلی ہوئی لاش دیکھ کر اندر ہی اندر جل رہی تھی.
“ ہائے میری فاطمہ کے بچے کیسے رہیں گے ماں کے بغیر. صبح صبح میری جلی ہوئی بیٹی کو یہاں چھوڑ گئے اور کہا کہ اس نے خودکشی کر لی. ہماری بدنامی ہو گی سارے محلے میں تو اس کو آپ ہی سنبھالو. ظالموں نے زرا بھی میری بچی کا خیال نہ کیا. ایسے بےشرم لوگوں کو اللہ دوزخ کی آگ میں غارت کرے. وہ بھی ایسے ہی جلیں جیسے انہوں نے میری فاطمہ کو جلا کر مار دیا.
““ بس کر دو نانی. بہت ہو گیا.” تسکین جو صبح سے ماں کی لاش کے پاس گم صم بیٹھی تھی ایک دم پھٹ پڑی. اس سے نانی کا واویلہ اب اور نہیں سنا جا رہا تھا. اس کی سوکھی مگر انگارے اگلتی آنکھیں نانی کو کھا جانا چاہتی تھی.
“اب کس بات کا بین کر رہی ہو جب میری ماں جل کر مر گئی؟ اب کیوں آنسو بہا رہی ہو. اور کوئی نہیں بلکہ تم قاتل ہو میری ماں کی. تم نے مارا ہے میری ماں کو.” تسکین غصے سے غرانے لگی اور اس کی یہ بات سن کر تمام مجمع میں خاموشی چھا گئی.
زرینہ اپنی سب سے بڑی نواسی، جو کہ سترہ سال کی تھی، کے منہ سے یہ الفاظ سن کر جیسے سکتے میں آگئی.“ میں؟ ارے پگلا گئی ہے لڑکی؟ میں کیسے تیری ماں کو مار سکتی ہوں؟ وہ تو میرے جگر کا ٹکڑا تھی” زرینہ کانپتے ہوئے بولی.“ بند کرو یہ جھوٹ موٹ کا رونا. جگر کا ٹکڑا یا بوجھ تھی وہ تم پر. تم نے اپنی عزت کی خاطر میری ماں کو مار دیا. تب کہاں تھی تمہاری مامتا جب میری ماں روتی ہوئی تمہارے پاس آئی تھی کہ وہ یہ ظلم و ستم اور برداشت نہیں کر سکتی. مگر تم نے اپنی عزت اور زمانے کا بھرم رکھنے کے لئے اسے واپس سسرال بھیج دیا. تب کہاں تھے تمہارے آنسو، جب اپنی بیٹی کو تم نے کہا تھا کہ اب جیسا بھی ہے یہی تمہارا مقدر ہے جیسے بھی ہو برداشت کرو. تب کیوں نہ تم نے میری ماں کا ساتھ دیا. اگر پہلی دفعہ ہی تم نے میری ماں کا ساتھ دیا ہوتا تو آج شاید میری ماں اس جگہ نہ لیٹی ہوتی. اس لاش کو دیکھ کر کیوں روتی ہو؟ تم نے اسی دن اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں زندہ درگور کر دیا تھا جب وہ تمہارا سہارا مانگنے آئی اور تم نے آسانی سے اپنا پلہ چھڑا لیا. میری ماں تو اسی دن مر گئی تھی.”
تسکین غصے اور غم کے ملے جلے جذبات سے بولی جا رہی تھی.“ اچھا ہوا ایک ہی دفعہ جل کر مر گئی. اب کوئی روز روز اسے نہیں جلائے گا. اچھا ہوا ایک ہی دفعہ اس کے عذاب کا خاتمہ ہو گیا ورنہ جانے اور کتنی موت مرنا پڑتا میری ماں کو. کبھی ایک بیٹی کے روپ میں مرتی تھی تو کبھی ایک بیوی کے روپ میں، کبھی بہو کے روپ میں مرتی تھی، تو کبھی ماں کے روپ میں، روز ایک نئی موت مرتی تھی وہ. آج تو بس اس کا جسم مرا ہے روح تو پہلے ہی مر چکی تھی. بس اس جسم کی قید سے وہ مردہ روح آزاد ہوئی ہے. کسی کو قاتل کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک اور پوچھ خود سےکہ میری ماں کا قاتل کون ہے. ” تسکین اپنے دل کی تمام بھڑاس نکال دینا چاہتی تھی. آج نانی کی باتوں نے راکھ میں دبی چنگاری کو ہوا دے دی تھی اور یہ ہوا آندھی کی شکل اختیار کر چکی تھی. وہ آندھی جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے کر ختم کر دینا چاہتی تھی. وہ اندھی جس کا انجام صرف اور صرف تباہی ہوتا ہے.