معصوم انعم کی سمندر کی ریت میں دھنسی لاش نے ایلان کردی کی یاد تازہ کردی۔دونوں کے قتل کے پیچھے کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ ، معاشروں کا ہاتھ تھا۔ایلان کے والدین اپنے خطے میں برستے استعماری بارود سے گھبرا کر اپنا دیس چھوڑ کر بھاگے ، لیکن دو ستمبر 2015 کی وہ خوفناک رات، جب ان کی کشتی کو بحیرہ روم کی طوفانی لہروں نے پاش پاش کردیا۔اور جب صبح ہوئی تو تین سالہ ایلان کردی کی ریت میں دھنسی ہوئی لاش ملی۔
یہ کراچی کی ڈھائی سالہ بچی انعم ہے۔لیکن اسے اس کی ماں نے خود سمندر میں ڈبو کر مارا ہے۔اس سفاکانہ قتل پر ہر دل تڑپ ٹھا ہے.کتنی پیاری بچی تھی اسے اس کی ماں ہی نے مارڈالا. ۔کسی نے کہا کہ ماں نے ممتا کے رشتے کو داغدار کردیا۔کوئی بولا ماں نہیں یہ دہشت گرد ہے۔ کسی نے یہ نہ پوچھا کہ اس واقعے کی نوبت ہی کیوں آئی۔
ماں شکیلہ کی عمر صرف اٹھائیس سال ہے۔ابھی اس کا دورجوانی بھی ختم نہیں ہوا۔لیکن شاید اس کے وہ تمام ارمان اب مٹ چکے ہیں،جو کسی خواب کی طرح اس نے کبھی دیکھے تھے۔شکیلہ ان ہزاروں لڑکیوں کی ایک جیتی جاگتی کہانی ہے، جو اپنی زندگی ادھوری چھوڑ کر شوہر کے گھر کا رخ کرلیتی ہیں۔اور اس نئی دنیا میں ان کی زندگی نہایت کم عمری میں ہی کئی امتحانوں سے دوچار ہوجاتی ہے۔ اور اگر تنگدستی اور معاشی مسائل بھی ہوں تو گھر میں چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے۔جس سے اکثر گھریلو جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔یوں حالات اکثرسانحے کی جانب چلے جاتے ہیں۔ کسی لڑکی کو زبان سے یہ کہہ دینا کس قدر آسان ہے کہ ’ دفع ہوجاؤ اس گھر سے‘ اس ایک جملے کے بعد لڑکی کا شیشے کا حسین محل ایک لمحے میں کانچ کی کرچیاں بن کر وجود کو زخمی کرجاتا ہے۔شکیلہ سے بھی اس کے شوہر نے یہ جملہ کئی بار کہا، اور صرف کہا ہی نہیں اس پرعمل بھی کرکے دکھایا ، شکیلہ گھر سے کئی بار نکال باہر کی گئی۔
شکیلہ کی اب شاید کوئی منزل رہی تھی نہ کوئی ٹھکانہ۔
میکے والے بھی شکیلہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس کا ذہن ایک عجیب کشمکش میں تھا، ایک تنہا عورت بچی کو اٹھائے اکثرگلیوں اور بازاروں میں گھومتی رہتی ۔اور سوچتی رہتی کہ اپنی بچی کو لیکر آخر جائے تو جائے کہاں؟
اور پھر ایک روزشکیلہ کو سمجھ آگیا ۔۔ کہ اسے کہاں جانا چاہیئے ۔
(ختم شد)
شعیب واجد
ملزمہ ماں شکیلہ اپنا اقبالی بیان دیتے ہوئے.