چھن گیا حافظہ میرا (شعیب واجد)

ایک بار ایسا ہوا کہ شیخ چلی دوستوں کو قصہ سنا رہے تھے،بولے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے گھر کی چھت پر مرغیاں اورکبوتر پالے ہوئے تھے،محلے کے شرارتی لڑکوں کی ان کے کبوتروں پر نظر تھی، ایک روز جب پورا محلہ سو رہا تھا،شرارتی لڑکے اُس گھر کی چھت پر چڑھ گئے، اور کبوتر چوری کرنے کی کوشش کی، لیکن کیا کیجئے کہ وہاں بدقسمتی ان کی منتظر تھی، لڑکوں کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے چھت پرمرغیوں نے شور مچا دیا، جس پر مالک کی آنکھ کھل گئی، اور شور کی وجہ جاننے کیلئے وہ چھت پر آیا تو لڑکوں نے گھبرا کر فرارہونا شروع کردیا۔
تمام دوست شیخ چلی جی کی اس کہانی کوغور سے سن رہے تھے، شیخ چلی آگے بولے کہ فرار کے دوران ایک چور مالک کے ہاتھ آگیا، جس کی اس نے خوب پٹائی لگائی، اور اسے آدھا گنجا کرکے چھوڑ دیا۔
یہ سن کر ایک دوست زور زور سے ہنسنے لگا،شیخ چلی نے اس کے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا بھائی وہ لڑکا جو پکڑا گیا تھا اور جسے آدھا گنجا کیا گیا تھا وہ شیخ چلی تم ہی تو تھے۔
یہ سن کر شیخ چلی بولے کیا بات کررہے ہو؟
اس پر کچھ دیگر دوستوں نے بھی ساتھی کی تائید کی ، اور شیخ چلی کو بتایا کہ بچپن کا یہ واقعہ آپ بھول گئے ہیں شاید ،اور یہ صرف ایک کہانی کے طور پر آپ کو یاد رہ گیا ہے، ورنہ یہ واقعہ پیش آپ ہی کے ساتھ آیا تھا۔۔
دوست نے شیخ چلی کو مزید چڑاتے ہوئے یہ بھی یاد دلایا کہ ہمیں یاد ہے کہ آدھے گنجے ہونے کے بعد آپ نائی کی دکان پر پورا گنجا ہونے بھی گئے تھے۔۔
دوستوں کے یاد دلانے پر شیخ چلی کو بھی یاد آنا شروع ہی ہوگیا۔۔اور وہ اپنا سر پیٹ کر بولے، لعنت ہو ایسی یاداشت پر، واقعی یہ واقعہ بس ایک کہانی کے طور پر ہی مجھے یاد رہ گیا تھا۔۔اس پر ان کے دوست بولے کوئی بات نہیں، اس عمر میں ایسا ہوجاتا ہے۔۔
واقعی دوستو، شاید ایسا ڈھلتی عمر کے تقاضے کی وجہ سے ہوتا ہوگا، یا شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ کو خود کو غلطیوں سے مبرا سمجھتے ہوں اور اپنی غلطی کا الزام دوسروں پر ڈال دیتے ہوں۔اور وہی یاد بھی رکھتے ہوں ۔۔
ابھی چند دن قبل میاں نواز شریف صاحب ایک تقریب میں ، بے نظیر بھٹو کو یاد کرکے آنسو بہا رہے تھے اور کہہ رہے تھےکہ ، جن لوگوں نے مجھے چلتا کیا، ان ہی لوگوں نے بے نظیر بھٹو کو بھی چلتا کیا تھا، میاں صاحب کا یہ بیان سننے کے بعد سامنے بیٹھے لوگوں نے حیرت سے منہ میں انگلیاں دبا لیں۔۔شاید سب ہی کو یاد تھا کہ بے نظیربھٹو کو نوازشریف نے ہی، کس ذلت بھرے انداز سے چلتا کرایا تھا، اوران کے چلتا ہونے کے بعد یہ بھی فرمایا تھا آج کا دن جمہوریت کی فتح کا دن ہے۔اور صرف یہی نہیں بے نظیر بھٹو کو دوسری بار بھی میاں صاحب نے ہی چلتا کروایا تھا یہ وہ دور تھا جب نواز شریف نے بے نظیر کو سیکورٹی رسک بھی قرار دینا شروع کردیا تھا۔یعنی ان کا مطلب یہ تھا کہ بے نظیر کو آئندہ کیلئے نااہل قرار دلوایا جائے۔

خیر وہ دور ہی ایسا تھا،اوراسی انداز کی سیاست ہوتی تھی، خود نواز شریف کو بھی پہلی بار بے نظیر نے ہی چلتا کروایا تھا اور جب نواز شریف چلتے ہوئے تو بے نظیر نے بھی اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا تھا۔نواز شریف کو دوسری بار مشرف نے چلتا کیا تھا جس پر بے نظیر نے “اطمنان” کا اظہار کیا تھا ، مشرف دور میں‌ ان کے شوہر آصف زرداری کو رہائی ملی، اُسی دور میں‌ پیپلز پارٹی رہنماؤں‌ کے مقدمات ختم ہوئے، پھر دبئی میں‌ بے نظیر کی مشرف سے خفیہ ملاقاتیں‌ ہوئیں،ان ملاقاتوں‌ کے نتیجے میں این آر او ہوا، لیکن کیا کیجئے کہ بعد میں‌ بے نظیر اور آصف زرداری بھی یہ سب بھول گئے، بلکہ الٹا ’’ فوجی آمر‘‘ پر الزامات لگانا شروع کردیئے.
.
ہمارے ملک کا سیاسی ماضی اس قدر آلودہ ہے کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ۔۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

۔۔ لیکن شاید کچھ سیاست دانوں کا حافظہ اس دعا کے بغیر ہی چھن گیا ہے۔ میاں صاحب دس سال سے فرما رہے ہیں کہ مشرف دور میں ایک کلومیٹر سڑک اور ایک میگاواٹ بجلی پیدا نہیں ہوئی،لیکن کوئی توانھیں بتائے کہ پنڈی تا پشاورموٹروے،کوسٹل ہائی وے،نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سمیت سواسو سے زائد میگا پراجیکٹْ مشرف دورمیں شروع یا مکمل ہوئے۔۔کوئی توانھیں یاد کرائے۔
چلو میاں صاحب کی عمر تو پینسٹھ کے پیٹے میں آگئی ہے،شاید اس لئے بھول گئے ہوں۔۔ لیکن بلاول کو کیا ہوا؟ آج کوئٹہ میں فرماتے ہیں، پچھلے دس سال سے سندھ کی ‘‘ خدمت‘‘ کررہے ہیں۔۔یارو، یا تو کوئی اسے خدمت کے معنی بتادے یا پھر ان کی یادداشت کا فوری علاج کرادے۔ مزید فرماتے ہیں کہ سندھ کو پس ماندہ دوسروں نے رکھا، کوئی تو ان کو یاد کرادے کہ جام اور ارباب کے چند سال چھوڑ کر پچھلی تین دہائیوں سے سندھ کی برسر اقتدار جماعت آپ کی اپنی ہی ہے، اور آپ ایک صدی بھی اسی ‘‘انداز’’ سے برسر اقتدار رہے تو صوبہ ایک صدی تک پسماندہ رہے گا۔
دوستو حافظہ ایم کیو ایم والوں کا بھی خاصا متاثر نظر آرہا ہے، اکثر تقریروں اور ٹاک شوز میں بھول جاتے ہیں کہ وہ الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں۔فاروق ستار بھی بہادر آباد گروپ سے ناراضگی کے دوران، ایک تقریر میں الطاف حسین کے اس نظام کی تائید کرگئے تھے،جس میں ‘‘بھائی’’ ڈنڈے سے پارٹی کنٹرول کرتے تھے۔اسی طرح کل ان کے ایک ایم پی اے فرما رہے تھے کہ پارٹی چلانے کا انداز تو وہی رہے گا جو بانی ایم کیو ایم بنا کرگئے ہیں۔شاید وہ ٹنکی گراونڈ جلسے کے حوالے سے فوری جواب دینے کی پالیسی کی وضاحت کررہےتھے، لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ ان کے ‘‘بھائی’’ اصل میں کون سا ‘‘ نظام’’ بنا کر گئے تھے۔۔
یادداشت کے معاملے میں صرف ہمارے سیاست دان ہی شیخ چلی نہیں، بلکہ عوام بھی ان سے کم نہیں، الیکشن کے دوران اسی کو ووٹ دے کر آئے ہوتے ہیں جس سے ٹُھڈے کھائے ہوں ، لیکن شاید شیخ چلی ہی کی طرح انھیں بھی، ٹُھڈے کے بجائے کسی جلسے کا ‘‘پلاؤ’’ یاد رہ گیا ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں