نام میاں ظفر اقبال اور تخلص ظفرؔ ہے۔ ۲۷؍ ستمبر۱۹۳۲ء کو بہاول نگر میں پید اہوئے۔ ابتدائی تعلیم اوکاڑہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج ، لاہور سے بی اے اور لا کالج لاہور سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔اوکاڑہ میں وکالت کرتے ہیں۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’آبِ رواں‘، ’گل آفتاب ‘، ’رطب و یابس‘، ’سرِ عام‘، ’نوادر‘، ’تفاوت‘، ’غبار آلود سمتوں کا سراغ‘، ’عیب وہنر‘، ’وہم وگمان‘، ’اطراف‘، ’تجاوز‘، ’تساہل‘، ’اب تک‘(کلیات غزل کے تین حصے)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:266
━ ✿❀✿ ━
🌹 شاعر ظفر اقبال ظفرؔ کے منتخب اشعار … 🌹
بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا
شہر کو ہر ذائقے سے آشنا کر جاؤں گا
—
بکھر بکھر گئے الفاظ سے ادا نہ ہوئے
یہ زمزمے جو کسی درد کی دوا نہ ہوئے
—
اب کے اس بزم میں کچھ اپنا پتہ بھی دینا
پاؤں پر پاؤں جو رکھنا تو دبا بھی دینا
—
خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا
—
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
—
اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے
—
جیسی اب ہے ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا
—
سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا
میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں جواں ہونے کی خاطر
—
بدن کا سارا لہو کھنچ کے آ گیا رخ پر
وہ ایک بوسہ ہمیں دے کے سرخ رو ہے بہت
—
اپنے ہی سامنے دیوار بنا بیٹھا ہوں
ہے یہ انجام اسے رستے سے ہٹا دینے کا
—
وداع کرتی ہے روزانہ زندگی مجھ کو
میں روز موت کے منجدھار سے نکلتا ہوں
—
اس کو بھی یاد کرنے کی فرصت نہ تھی مجھے
مصروف تھا میں کچھ بھی نہ کرنے کے باوجود
—
میں کسی اور زمانے کے لیے ہوں شاید
اس زمانے میں ہے مشکل مرا ظاہر ہونا
—
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
—
خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے
یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہئے
—
یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے
—
بدلہ یہ لیا حسرتِ اظہار سے ہم نے
آغاز کیا اپنے ہی انکار سے ہم نے
—
روبرو کر کے کبھی اپنے مہکتے سرخ ہونٹ
ایک دو پل کے لیے گلدان کر دے گا مجھے
—
سنا ہے وہ مرے بارے میں سوچتا ہے بہت
خبر تو ہے ہی مگر معتبر زیادہ نہیں
—
اب اس کی دید محبت نہیں ضرورت ہے
کہ اس سے مل کے بچھڑنے کی آرزو ہے بہت
—
وہ چہرہ ہاتھ میں لے کر کتاب کی صورت
ہر ایک لفظ ہر اک نقش کی ادا دیکھوں
—
کرتا ہوں نیند میں ہی سفر سارے شہر کا
فارغ تو بیٹھتا نہیں سونے کے باوجود
—
ہزار بندشِ اوقات سے نکلتا ہے
یہ دن نہیں جو مری رات سے نکلتا ہے
—
اپنی یہ شانِ بغاوت کوئی دیکھے آ کر
منہ سے انکار بھی ہے اور سر بھی جھکائے ہوئے ہیں
—
لگتا ہے اتنا وقت مرے ڈوبنے میں کیوں
اندازہ مجھ کو خواب کی گہرائی سے ہوا
—
اس طرح بھی چلا ہے کبھی کاروبارِ شوق
روٹھے کوئی تو اس کو منا لینا چاہیئے
—
اپنی مرضی سے بھی ہم نے کام کر ڈالے ہیں کچھ
لفظ کو لڑوا دیا ہے بیشتر معنی کے ساتھ
—
یہ شہر زندہ ہے لیکن ہر ایک لفظ کی لاش
جہاں کہیں سے اٹھی شور میرے گھر میں رہا
—
اک لہر ہے کہ مجھ میں اچھلنے کو ہے ظفرؔ
اک لفظ ہے کہ مجھ سے ادا ہونے والا ہے
—
رو میں آئے تو وہ خود گرمئ بازار ہوئے
ہم جنہیں ہاتھ لگا کر بھی گنہ گار ہوئے
—
ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا
وہ خود ہی ایک دن اس دائرے سے گزرے گا
—
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا
—
میں نے کب دعویٰ کیا تھا سر بسر باقی ہوں میں
پیشِ خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں
—
کبھی اول نظر آنا کبھی آخر ہونا
اور وقفوں سے مرا غائب و حاضر ہونا
—
ایماں کے ساتھ خامیٔ ایماں بھی چاہئے
عزمِ سفر کیا ہے تو ساماں بھی چاہئے
—
رہ رہ کے زبانی کبھی تحریر سے ہم نے
قائل کیا اس کو اسی تدبیر سے ہم نے
—
ظفرؔ مرے خواب وقت آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جا رہا تھا
●•●━━━★✰★━━━●•●
انتخاب : کامران مغل