فلسطین میں دوریاستی حل کوعملی شکل دیناہوگی

تحریر۔۔ سفیان وحید۔۔ کراچی

اسرائیل تمام تراخلاقی ،قانونی اور عالمی فیصلوں کوبالائے طا ق رکھ کرنہتے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔عیدالاضحی کے دنوں میں بھی اسرائیلی بمباری سے سیکڑوں مظلوم فلسطینی عوام کی شہادتیں ہوئی ہیں جبکہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔فلسطین میں جاری بحران عالمی طاقتوں سے تقاضا کررہے ہیں کہ نہ صرف مشرقی وسطیٰ بلکہ دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کواب عملی شکل دیناہوگی۔ ابولانبیاءسمیت اللہ کے کئی نبیوں و رسولوں نے دین حق کی خاطر ہجرت کی۔ کفار مکہ کے ستائے جانے پر خاتم النبین حضر ت محمدﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور جب تک مدینہ میں رہے قبلہ اول یعنی بیت المقدس کی جانب متوجہ ہوکر اللہ کی عبادت کرتے رہے لیکن قبلے کی تبدیلی کا حکم الہٰی آجانے پر خانہ کعبہ مسلمانوں کا اصل قبلہ قرار پایا۔ اللہ کا حکم ہواکہ مسلمانوں تم جہاں کہیں بھی ہو خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے عبادت کیا کرو۔اسی ہی طرح حضرت موسیٰ نے فرعون کے جبر سے نجات پانے کے لئے حکم الہٰی پر مصر سے ارض فلسطین ہجرت کی۔ مقام حجاز اور ارض فلسطین اللہ کی عبادت کے دو اہم مراکز ہیں جہاں دین حق کی سدا ہر وقت سربلندہوتی رہتی ہے لیکن آج جومنظربن گیا ہے وہ بالکل ان مقاصد کے برعکس ہے ۔ جب رومنز حکمرانوں نے اسی سرزمین پر یہودیوں کا جینا حرام کر رکھا تھا ساتھ عیسائیوں کو بھی نقصان پہنچاتے تھے اور رومنز نے یہودیوں کا بہیمانہ قتل عام بھی کیا۔ ایسے میں مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارض فلسطین کو ایک معاہدے کے بدولت فتح کیا اور اللہ کے نبی و رسول موسیٰ کے پیروکاروں یعنی یہودیوں کو رومنز کے جبر سے نجات ملی۔ اس کے بعد یہودیوں نے پوری دنیا میں آباد ہونے کا فیصلہ کیا تاہم تینوں فریقوں کے معاہدے کے مطابق ارض مقدسہ میں یہودیوں کو بھی عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرح عبادت و زیات کا حق و اختیار حاصل ہے۔ آج ارض فلسطین بالخصوص غزہ کی پٹی میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیاجارہا ہے وہ معاہدے کی سراسرخلاف ورزی ہے ۔بہترہوگا کہ مسلمان اپنی سرزمین کے دفاع کے ساتھ حجاز مقدس یعنی خانہ کعبہ کے گردبھی جمع ہوجائیں اور مدینہ منورہ کاتحفظ بھی یقینی بنایاجائے کیونکہ صیہونیت اب یہودیت کاروپ دھار کر رومنزحکمرانوں کاکھیل کھیلنے لگی ہے ۔فلسطین میں جاری جنگ سفارت کاری کے ذریعے رک جانے کی توقع تھی لیکن اب تک ایسانہیں ہوسکا ہے حالانہ فلسطین میں امن کاقیام ناگزیر ہے بصورت دیگر بڑی تباہی ہوسکتی ہے مگراب تک اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی مسلم فلسطینیوں کاقتل عام روکنے میں ناکام رہی ہیں ۔دنیابھرمیں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے بھی ہورہے ہیں اس کے باوجود جنگ مزید پھیلنے کے خدشات ہیں ۔دنیابھر کے طالب علم اور درددل رکھنے والے لوگ آزاد فلسطینی ریاست کے حق اور فلسطینیوں کے نسل کشی کو رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی آزاد خودمختار فلسطینی ریاست کے حق میں قراردار اکثریتی رائے پر منظور کی ۔عالمی عدالت انصاف نے بھی اسرائیل کو فلسطین میں قتل عام روکنے کاحکم دیا ہے لیکن اسرائیلی اب بھی مسلم فلسطینیوں کے نسل کشی کی راہ پرگامزن ہے ۔فلسطین میں تنازع کی اصل وجہ دارالحکومت کامعاملہ ہے جس پرجس پر اسرائیلی صیہونی قوت نے قبضہ کیا ہوا ہے یعنی یوروشلم جبکہ وہ سرزمین تین انبیاءکی سرزمین ہے جس کوایک آزاد شہر بننا ہے یعنی کہ UN Buffer Zone ۔اس حوالے سے حضرت عمر ؓ کے امن معاہدے کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکی ابراہم ایکارڈ سے بھی معاہدے کی حمایت کی گئی ہے ۔معاہدے کے مطابق مسلمان،یہودی اور عیسائی سرزمین مقدسہ پرعبادت اور زیارت کے یکساں حقدار ہوں گے۔یہ سرزمین نبی اور رسول عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے ۔دنیا میں ان کی واپس آمد پر ان ہی کی بادشاہی قائم ہوگی اور وہ پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کاپرچارکریں گے ۔ مسلمان اقوام متحدہ کے دوریاستی حل کی قراردار کے ساتھ کھڑے رہیں کیونکہ غزہ پٹی مسلم فلسطینیوں کی سرزمین ہے جس کا اعلان امریکہ کرچکا ہے اور مغربی ممالک اس پر متفق ہیں۔اگر ابراہیم ایکارڈپرعملدرآمد کی صورت میں ہی فلسطین کی سرزمین پرامن قائم ہوسکتا ہے بصورت دیگر آنے والی تباہی کوروکنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں