بائیس اگست کو جب قوم بقرعید منا رہی ہوگی ، اس وقت بہت سے سیاست دانوں کی بھی عید ہوچکی ہوگی۔جب کہ عید پر ایک طرف جانوروں کی قربانی ہورہی ہوگی تو بہت سےسیاست دان بھی قربانی کا بکرا بنے ہوئے نظر آئیں گے۔
پہلے بات کپتان کی ہوجائے ۔ کپتان کی عید کا تو آغاز ہو ہی چکا ہے ، پاکستان کے وزیراعظم کی کرسی پر وہ بہت فٹ بیٹھے ہیں۔ قربانی کی گائے کی طرح ان کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش بھی ہوئی لیکن اس بار ایسا کرنے والے زیادہ طاقت نہیں لگا سکے۔۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس بقرعید پرسیاسی قصائی ہمت ہار بیٹھے ہیں۔۔
بات میاں نوازشریف کی ہوجائے۔وہ ایسا سیاسی بیل تھے جس کو سنبھالنا اکیلے آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔وہ خود اپنے آپ سے بھی نہ سنبھلتے تھے۔ زوردار آوازیں بھی نکالنے لگے تھے۔ پھراس بیل میں سات حصے لے لئے گئے۔ تب میاں صاحب کو پتا چلا یہ تو ہاتھ ہوگیا۔ بیل کو گرانا کسی قصائی کے بس کی بات نہ تھی ، لیکن میاں صاحب خود ہی اپنے آپ کو گراتے گئے یوں قربان گاہ جا پہنچے۔
شہباز شریف نے اس عید پر کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی ۔ قصائی کو اپنا دوست سمجھتے رہے ۔ لیکن جب وہ قریب آیا تو چھری اس کے بغل میں تھی ، شہباز شریف کی مثال اس بکرے کی ہے ، جسے پالنے کیلئے لایا گیا تھا لیکن باندھ قربان گاہ میں دیا گیا۔ دیکھتے ہیں اب آگے کیا ہوتا ہے ۔
آصف زرداری کی بات بھی ہوجائے۔ اصف زرداری نے دس عیدیں رج کر منالیں ۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ وہ کیس بھی کھل گئے جن کا عوام کو پتا تک نہ تھا، کچھ سال پہلے انھوں نے غصیلے بیل کی طرح کسی کو آنکھیں دکھانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن منتر الٹا ہوگیا ۔پھر رام رام کرکے کام نکالنے کی کوشش کی ۔ وہ بھی ناکام گئی، یوں یہ بکرا بھی اس عید پر سیاسی قربانی کیلئے تیار ہے ۔۔
سیاسی منڈی میں آصف زرداری کے فارم کے کئی دیگر بکرے بھی قربانی کیلئے لائے گئے ہیں، جن میں انور مجید ، فریال تالپور ، ڈاکٹر عاصم اور دیگر کئی بکرے شامل ہیں۔
بہت سے چالاک بیل ایسے بھی تھے جو عید آنے سے بہت پہلے ہی سمندر پار چلے گئے تھے ، وہاں وہ قربانی تو کیا جھٹکے سے بھی محفوظ ہیں ، لیکن ان کی ڈکاریں وڈیوز کے زریعے یہاں تک سنائی دیتی رہتی ہیں۔تاہم ان کے ’’بھائی لوگ‘‘ جو کرانچی میں رہ گئے تھے وہ اپنی ’’مونچھوں کے تاؤ‘‘ اور ’’گوشت کے بھاؤ‘‘ دونوں ہی گرا بیٹھے۔ کئی سال سے ان بے چاروں کی کھالیں جمع کرنے کی ’’ہابی‘‘ بھی پوری نہیں ہورہی ۔
سیاسی منڈی میں اس بار کئی نرم و نازک اور ملائم بکرے بھی لائے گئے ہیں، بلاول بھٹو یوں تو سیاسی مویشی منڈی میں خوب چھلانگیں لگاتے نظر آرہے ہیں ۔ لیکن ان کے دانت ابھی پورے نہیں آئے، اس لئے قربانی کا ابھی کوئی خطرہ نہیں۔ وہ صرف عید منائیں گے۔
کچھ خاص بکروں کی بات ہوجائے۔ایم ایم اے کی شہر کے درمیان لگائی گئی مویشی منڈی عوام کو اپنی جانب متوجہ نہ کرسکی۔مولانا کو عوام نے ’’ٹکرمار بکرا‘‘ سمجھ کر مسترد کردیا ۔ جبکہ دیگر ساتھیوں کے بارے میں کہا گیا کہ ان میں اتنا گوشت نہیں جتنے دام مانگے جارہے ہیں۔ یوں یہ بکرے اونے پونے ہی بکے اور اس عید پر سیاسی قربانی دیتے نظر آرہے ہیں۔
بکروں کی ایک نسل مارخور بھی ہے، جسے سب پہاڑی بکرا کہہ کر چھیڑتے رہے ہیں۔ اور کہتے تھے کہ ان کا گوشت کھانےکے لائق نہیں۔ یہی ان کی جیت بن گئی ہے ۔ اس عید پر مارخوروں کے حوالے سے اچھی خبریں بھی آرہی ہیں۔ان کی نسل کو لاحق خطرات دور ہوگئے ہیں۔
یوں اس بار سیاسی منڈی کے بہت سے بکرے عید منائیں گے اور بہت سے خیر مانگیں گے۔ لیکن آثار یہی بتا رہے ہیں کہ قربانی ہو نہیں رہی۔۔قربانی ہوگئی ہے۔۔