ایک زمانہ تھا کہ جب دو لوگوں میں جھگڑا ہوتا تھا تو ایک شخص آگے بڑھ کر دونوں کو چُھڑا دیا کرتا تھا،لیکن آج جب دو لوگ جھگڑ رہے ہوتے ہیں تو وہ انھیں چھڑانے کے بجائے ان کی وڈیو بنا رہا ہوتا ہے۔ایسے لوگوں کی کمی نہیں،اور بدقسمتی سےآج کا ہمارا معاشرہ خصوصاً میڈیا بھی ایسے ہی کردار کا عکاس ہے۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ کہیں کسی چوک پر کچھ لوگ قبضہ جمالیں اور عوام کی زندگی دو بھر کردیں تو میڈیا چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے، اس وقت ایسا لگتا ہے کہ جیسے میڈیا سے بڑا عوام کا ہمدرد کوئی ہے ہی نہیں۔لیکن جب ان شر پسندوں کے خلاف کارروائی ہونے لگتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے رپورٹر یا اینکر کے گھر والوں کے خلاف کارروائی ہوگئی ہو، ایسا شور مچایا جاتا ہے کہ جیسے مظلومین پر پولیس کا ظلم شروع ہوگیا ہو۔
یوں پھر ہوتا یہ ہے کہ شرپسند عناصر کا حامی طبقہ جو اس وقت دبا ہوا ہوتا ہے وہ بھی شیر ہوکر کھل کر سامنے آجاتا ہے، یوں برائی کو شہہ ملتی ہے اور انصاف کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔
ہمارے ملک میں دہشت گردی اور کرپشن اس طرح عام ہے جیسے ’’آم‘‘۔۔
یوں اس کے ذائقے اور اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض سنگین جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری کیلئے میڈیا خوب مہم چلاتا ہے،اور میڈیا کی مہم کی وجہ سے کئی لٹیرے پکڑے بھی جاتے ہیں۔ لیکن پھردیکھا یہ جاتا ہے کہ جب کوئی ملزم ہتھکڑی پہنے پولیس کی گاڑی سے نیچے اتر رہا ہوتا ہے تو میڈیا جیسے،اُس دلہن کا انٹرویو کرنے کی مانند،اس طرح بلبلا رہا ہوتا ہے، جو شادی کے بعد پہلی بار میکے آئی ہو۔
میڈیا کی جانب سے ملزم سے سوالات بھی اس طرح کے کئے جاتے ہیں کہ وہ مظلوم بن کر،آنکھوں میں آنسو لا کر ، اپنی گرفتاری کو مخالفین کی سازش قرار دے کر بھولا بن جاتا ہے۔ملزمان کی’’بھولی ‘‘ شکلیں دکھا کر انھیں عوام کی ہمدردی دلا کر قانون سے کھلواڑ کردیا جاتا ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ پرائیوٹ نیوز چینلز ایک کاروبار کا نام ہے، اس کاروبار میں کمائی کا زریعہ اشتہارات ’’بھی‘‘ ہیں۔ایک منٹ کا اشہار دکھانے کیلئے کسی کمپنی کو لاکھوں روپے کا ایئر ٹائم خریدنا پڑتا ہے،یہ عموماً مہینے بھرکی ڈیل ہوتی ہےجو کروڑوں میں بنتی ہے۔اور یہ بزنس کا تقاضا ہے کہ کسی کمپنی کا ایک منٹ کا اشتہار بھی مفت میں نہیں چلایا جاتا۔
لیکن یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ یہی چینلز بعض سیاسی جمہوروں کیلئے بڑے فیاض ثابت ہورہے ہوتے ہیں۔ جب کوئی جمہورا تقریر کرنےکھڑا ہوتا ہے تو ٹی وی پر مہنگے سے مہنگا اشتہار بھی گرا کر اس کی تقریر دکھانی شروع کردی جاتی ہے، اس نقصان میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے، جب لیڈر کی تقریر لمبی ہوجاتی ہے، تقریر پوری کیوں دکھائی جاتی ہے، اپنا نقصان کیوں کیا جاتا ہے، ایئر ٹائم مفت میں سیاسی لیڈر کو دے کر اسے ’’ہیرو‘‘ کیوں بنا دیا جاتا ہے، اسکا جواب کسی کے پاس نہیں۔بہت سے چینل تقریر کی طوالت سے گھبرا اسے روک کر اپنی معمول کی نشریات پر واپس آنا چاہتے ہیں۔ لیکن اسکے لئے وہ انتظار کررہے ہوتے ہیں کہ پہلے دوسرا چینل تقریر سے نکلے تو پھر ہم بھی نکلیں۔
یعنی یہ بھی ثابت ہوا کہ چینلز کی اڈیٹوریل پالیسی کوئی نہیں، بس بھیڑ چال ہی چل رہی ہوتی ہے۔ یوں اکثر کوئی سیاسی جلسہ نیوز چینلوں کے کئی گھنٹے مفت میں کھا کر اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ (بعض چینلز کو یہ مفت میں نہیں پڑتا،لیکن وہ ایک الگ داستان ہے) یوں اندازہ لگا لیں کہ یہ چینلز سیاسی جمہوروں کیلئے کتنے فیاض ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا میں نیوز چینلز وہ کہلاتے ہیں جو خبریں دکھاتے ہیں ، لیکن پاکستان میں نیوز چینلز ذیادہ تر بیانات دکھاتے ہیں لیکن دعوی پھر بھی یہ کرتے ہیں کہ وہ نیوز چینل ہی ہیں۔ اوراگر انھیں کوئی یہ مشورہ دے دے کہ خود کو نیوز کے بجائے ’’بیان باز ٹی وی‘‘ کہنا شروع کردو تو برا مان جاتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ ’’صحافت‘‘ کی توہین کردی گئی۔
صحافت پر یاد آیا کہ یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ ہمارے ہاں جب ’’توہینِ صحافت‘‘ کی بات ہوتی ہے ، تو اس سے مراد اکثر وہ ’’صحافت نما چیز‘‘ ہوتی ہے، جس کا لبادہ اوڑھ کر کچھ لوگ خود کو صحافی کہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ معاشرے میں انھیں اور بھی کچھ ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ٹی وی صحافت کا حشر وہی ہوا ہے، جو کراچی میں کسی پارک کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی ہریالی اور کھلی فضا کو ترسے ہوئے شہری کسی نئے پارک میں اسکی گنجائش سے ذیادہ وارد ہوجاتے ہیں،اور کچھ ہفتوں بعد ہی وہاں ریت اڑ رہی ہوتی ہے، پارک کی مینٹیننس اس لئے نہیں ہوتی کیونکہ فنڈ، پارک کے افتتاح تک کا ہی رکھا گیا ہوتا ہے۔۔
میڈیا ہاؤسز کا حال بھی کراچی کے گنتی کے پارکس کی طرح ہوا ہے، یہاں لوگ گلیمر اور اسکرین کے رنگ دیکھ کر نوکریاں حاصل کرنے کیلئے ٹوٹے ، چینلوں کا بجٹ کم ہوتا گیا تو سستے ملازمین کو رکھنا شروع کردیا گیا، ٹریننگ کا یہاں کوئی رواج ہی نہیں، اڈیٹوریل بورڈز کا تصور نہیں۔نئےملازمین کے ساتھ پرانے ملازمین کی بھی ’’کیریئر بِلڈنگ‘‘ نہیں۔فریش آنے والوں کو یہاں اکثر یہ جملہ سن کر دھچکہ سا لگتا ہے کہ ’’ کہاں آگئے بھائی‘‘ ؟
واقعی ۔۔حال کچھ ایسا ہی ہے۔۔بس یہ کہیئے کہ میدان صحافت میں بھی ریت ہی اڑ رہی ہے ۔۔