پاکستان کے گھیراؤکے لئیے داخلی اور خارجی دونوں محاذ پر حالات بڑی تیزی سے پیدا کئیے جارہے ہیں ۔
میاں صاحب کے بیانات نے پاکستان کو دنیا کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے کھڑا کر دیا ہے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے گرے یا بلیک لسٹ کیا جانا واضح نظر آرہا ہے ڈولتی ہوئی معیشت کے لئیے ان جھٹکوں کو برداشت کرنا انتہائی مشکل ہوگا اور حکومت معیشت کی خرابی کی ساری ذمےداری میاں صاحب کے خلاف عدالتی فیصلوں اور نیب کی کاروائیوں پہ ڈال بری الذمہ ہوجائیگیی جبکہ پچھلے پانچ سالوں میں قرض کی مے پی پی کے فاقہ مستی کے رنگ لانے کی امیدیں دی جاتی رہیں ۔
حالانکہ آج کی دگرگوں معاشی صورتحال پانچ سال کی ڈنگ ٹپاؤ معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے مہنگائی کک اسٹارٹ ہو چکی ہے اور بہت تیزی کے ساتھ گئیر بدلتی نظر آرہی ہے ۔ جسکو رمضان میں اور بوسٹ ملے گا ۔
قرضہ اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر آنے والوں کے پانچ سال بعد چھٹے سال بھی پاکستان اپنی تاریخ کا ایک سال میں سب سے زیادہ یعنی 13 ارب ڈالرز کے قرضےکےلئیے دروازے کھٹکھٹاۓ گا اور ان قرضوں پر 31% تک کا انٹرسٹ دینا پڑتا ہے اور پہلےہی ہم 5400 ارب میں 1600 ارب قرضوں کی ادائیگی میں دیتے اوراس چکر میں تعلیم ، صحت اور ڈیولپمنٹ کاحصہ سکڑتا جارہاہے ۔
چین سے کئیے گئے معاہدوں کے مطابق 35 ارب ڈالرز پاور پراجیکٹس کے لئیے ہیں اور یہ حکومت 32 ہزار میگا واٹ کا دعویٰ بھی کرتی ہے تو پھر لوڈشیڈنگ کا جن پھرباہر کیوں ؟ کہ آج سولہ مئی کو تاریخ کا دوسرا بڑا بریک ڈاؤن ہوگیا ۔ اسکی سب سے بڑی بڑی وجہ ڈسٹری بیوشن کے نظام کی بہتری کی طرف سے غفلت ،سرکلر ڈیٹ کا عذاب اور جمہوریت بہترین انتقام کے دور کی پہلی انرجی پالیسی ہے جسکا نتیجہ یہ سرکلر ڈیٹ جو 1000 ارب کو کراس کر چکا ہے یعنی ہم پر توانائی سے وابستہ کمپنیوں کا ادھار ہے جو ہم چکا ہی نہیں پارہے ۔
اوور اور انڈر انوائسنگ کی چالاکیوں سے امپورٹرز اور ایکسپوٹرز ملکی خزانے کو اربوں ڈالرز کے نقصان پہنچارہے ہیں ، چائنا کے اعداد و شمار کے مطابق چائنا نے پاکستان کو 14 ارب ڈالرز کی اشیاء بیچی اِدھر ہمارے اعداد و شمار کے مطابق ہم تو صرف 10 ارب ڈالرز کی چیزیں خرید رہے ہیں تو یہ 4 ارب ڈالرز کدھر گۓ ۔ یہ مفتاح اسماعیل نہیں بتاتے صرف ہاتھ مل کے رہ جاتے ہیں ، انہیں بتانا چاہئیےکہ 4 ارب ڈالرز اسی گرے اکانومی کا حصہ بن جاتے ہیں جس سے 4.9 ارب ڈالرز پاکستان سے بھارت جاکر اسکے فارن ریزرو کو تقویت دیتے ہیں ۔ اور اسٹیٹ بنک وضاحتیں دیتا ہے جسکی اپنی دنیا میں ریٹنگ 89 ویں نمبرکی ہے ۔
چین سے اتنے تھلے لگ کر معاہدے کییے کہ چین ڈیجیٹل ڈاٹا ٹرانسفر کے معاہدے پہ دستخط نہیں کرہا کہ پہلے پاکستان چین سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے دوسرے راؤنڈ کے معاہدے بھی مانے جسکے مطابق چین کی سینکڑوں اشیاء پہ ڈیوٹی کم کرنا ہونگی ، ڈر کا یہ عالم ہے کہ چائنا کی کمپنی نے امپورٹ ڈیوٹی بچانے کے گھپلے میں 1.2 ارب روپے کسٹمزمیں شرمندگی سے جمع کراۓلیکن اسکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی کہ وہ چائنا کی سرکاری کمپنی کی سسٹر کمپنی ہے ۔
سواۓ چائنا کے ان پانچ سالوں میں باقی دنیاسے براۓنام سرمایہ کاری ہوئی ہے کیونکہ جو بھی پاکستان میں پیسہ لگاۓ گا جب وہ دیکھے گا کہ ڈوئنگ بزنس انڈیکس میں پاکستان 115 ویں ، انڈیا 40 ویں نمبر پر ہے تو بڑی بڑی کمپنیاں انڈیا ہی جائینگی ۔
افسوس اس بات کا ہے ہمارے ملک میں بے شمار قدرت کی نعمتیں ہیں اسکے باوجود بھی ہم انڈراچیونگ ممالک کی فہرست میں 14 ویں نمبر پر ہیں ہم ساؤتھ ایشیاکے دورسرےجوان ملک ہیں لیکن ہم ملک کے14 کروڑ جوانوں اور بچوں کی تعلیم اور ہنرمندی بڑھانے سے غافل ہیں کیونکہ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں ہمارا نمبر 89 ہے ۔ میٹرک سے پہلے ہہلے اسکول چھوڑنے والے بچوں کا تناسب 76 % ہے یعنی دس میں سے سات بچے اسکول نہیں جاتے ۔ اگر آج ہم نے ایمرجنسی کی بنیادوں پہ تعلیم کو پہ کام نہ کیا تو cpec کے تحت پاکستان میں چائنیز کمپنیوں کے لییے بوجھ اٹھانے والے مزدور ہی پائنگے ۔
معاشی غارت گری کی چاول کی اس دیگ کے یہ چنددانے ہیں جس سےاندازہ لگایا جاسکتاہے ۔
اس خراب معاشی صورتحال کے ساتھ پاکستان امریکہ اور انڈیا کے گھیراؤکا کیسے مقابلہ کریگا۔