پڑوسی ملک بھارت میں بھارتی رہنماؤں کا ملکی معیشت کو اپنی سیاست کا بنیادی محور بنانا اور ہمارے ملک پاکستان میں معاشی معاملات سے ہٹ کر دینا کے ہر معاملے پر سیاست کرنا اورعوام کو چسکے کرانا ، دونوں ملکوں کے عوام اور رہنماوں کی اکنامک لٹریسی کے فرق کو بے نقاب کرتا ہے ۔ اور شائد اسی لیئے بھارت ورلڈ بینک کے ڈوئینگ بزنس انڈیکس پر 40ویں نمبرپر ہے اور پاکستان 115ویں پر ، یہ بات ذہن میں رہے کہ اس انڈیکس میں صرف 20 یا 22 ملک ہی ہم سے نیچے ہیں جن ملکوں کے ہم نام بھی نہیں جانتے وہ بھی ہم سے بہترہیں ۔
یار لوگوں کا تختۂِ مشقِ ستم ، بھوٹان 75 ویں نمبر پر ہے اور اس نے یہ عہد کیا ہے کہ اگلے دو سالوں میں وہ 50 ویں نمبر پر آنا چاہیگا ۔
ورلڈ بینک ڈوئینگ بزنس انڈیکس میں چالیسویں نمبر پر ہونے کے باوجود بھی بھارت میں ایک ایک لیڈر معیشت پر بات کر رہا ہے اور حکومت کو آڑھے ہاتھوں لے رہا ہے ۔ بی بی سی کی نیچے دی گئی ایک سال پہلے کی رپورٹ میں مودی کی اقتصادی پالیسیوں ، معاشی گراوٹ اور جی ڈی پی میں کمی پر بھارتی لیڈروں ، انکے معاشی تجزیہ کاروں کی تنقید کو پڑھا جاسکتا ہے اور یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے بھارتی معیشت میں موجودہ اور آنے والےسالوں میں بھی گراوٹ کا امکان ہے ۔
https://www.bbc.com/urdu/regional-41430417
بھارت کے برعکس وطن عزیز میں ، مجھے کیوں نکالا اور آ بتائیں تجھے کیوں نکالا ہی چل رہا ہے ۔ وزارت خزانہ آئی ایم ایف سے بھیک مانگنےکے لیئے پرزینٹیشنز بنا رہی ہے اور خاقان عباسی صاحب جاتے جاتے وفاقی ملازمین کو ، تین تین مہینوں کی تنخواہیں دے کر قوم کی دکان پراگلے انتخابات میں کامیابی کی فاتحہ پڑھ رہے ہیں ۔
ملکی معیشت کی ECG کی حقیقت اسٹیٹ بنک ، موڈیزاور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹ نے بتا دی ہے۔ جسکے مطابق معیشت کی نبضیں ڈوب رہی ہے اور سانسیں اکھڑی جارہی ہے جسے سہارا دینے کے لیئے چین پچھلے دو ماہ سے تقریبا 2ارب ڈالرز کی آکسیجن دے چکا ہے اور 600ملین ڈالرز صرف جیب میں رکھنے کے لیئے الگ ۔
اس وقت پاکستان کی جیب میں صرف اگلے دو ماہ کی ادائیگیوں کے 10ارب ڈالرز ہی رہ گئے ہیں اور ہم پرادھار بھی 101ارب ڈالرز کا چڑھ گیا ہے ۔
ملک کے لوگوں کے کھانے پینے اور استعمال کے لیئے ہم 50ارب ڈالرز کی چیزیں خرید رہے ہیں جبکہ ہماری دکانوں سے صرف 20ارب ڈالرز کی چیزیں خریدی جارہی ہیں۔ کیونکہ ہم مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوتے جارہے ہیں ، یورپی ممالک میں ہماری دکانیں بند ہورہی ہیں ۔
نگراں وزیر اعظم کوبھی بتا دیا گیا ہے کہ ہماری معاشی حالت اتنی پتلی ہو چکی ہے کہ اب آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں بچا ۔ فوری طور پر آئی ایم ایف سے شارٹ ٹرم ضروریات یا پھر طویل المدتی قرضوں کی پرچہ نویسی شروع کی جائے ۔
کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسیٹ ٹو جی ڈی پی ریشو 5.6% یعنی 14 ارب ڈالرز تک جا چکا ہے ۔ جسکے حل کے لئیے ائی ایم ایف سمیت تمام آپشن استعمال کرنے پڑینگے ۔ اور آئی ایم ایف نے اپنے پچھلے جائزہ اجلاس میں یہ عندیہ دیا تھا کہ پاکستان کو اس سال 27ارب ڈالرز کی فنانسنگ چاہئے ہونگی ۔
فارن ریزرو صرف 10ارب ڈالرز پر آگئے ہیں ۔ اور اس قابل بھی نہیں رہے کہ دو ماہ کی ادائیگیاں ہو سکیں ۔ ڈالرز کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے کی ڈار کی ڈالر پالیسی نے یہ دن دکھائے کہ روپیہ لڑھکتا چلا جارہا ہے اورفارن ریزرو گھٹتے جار ہے ہیں ۔ پچھلے 5 سالوں میں 41ارب ڈالرز کے قرضے کے پیسوں میں سے 7ارب ڈالرزجیسی بڑی رقم ، ڈار صاحب نے ڈالرز کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے میں جھونک دی کیونکہ ہمارے عوام کی نظر میں بس ڈالر کوایک سطح پر ہی روکے رکھنا بہت بڑی معاشی فنکاری ہے ۔
ایف بی آر نے بھی صاف بتا دیا کہ چار کھرب کی وصولیاں نہیں ہو سکیں گی ۔ بجٹ ڈیفیسٹ یعنی اخراجات اور کمائی میں جو فرق ہے وہ تقریبا دو کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ یعنی گھر چلانے کے لیئے ہاتھ میں پیسے نہیں رہے اور ادھار کے بغیر کام نہیں بنے گا اور ایک بار پھر اسی عطار کے لونڈے کے پاس حاظری دینا ہوگی ۔
ہوئی لاکھ دنیا ادھر کی ادھر ہے
وہی اپنا سر ہے، وہی سنگ در ہے ۔
https://tribune.com.pk/story/1727908/1-pakistan-needs-imf-support-mulk-warned/
مسلہ یہ ہے کہ ہماری قوم یوسفی صاحب کے بقول ویسے بھی حساب کتاب سے ہمیشہ سے دورہی رہی ہے اورایسا لگتا ہے کہ اب مذید دور ہوتی جارہی ہے ۔آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک ہمارے بزرگ باقاعدہ بجٹ کا انتظار کرتے تھے اور اگلے دن حکومت کی تعریف یا پھر اسے کوستے نظر آتے تھے ۔ 70 سے 80 تک کے منشور بھی معاشیات کے گرد گھومتے تھے۔
لیکن اب ، عوام کے ساتھ ساتھ ہمارے دانشوربھی معاشی معاملات سے بیگانہ ہوتے جارہے ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا نے انکو بھی گلی محلوں سے نکال کر بحریہ ٹاون اور عسکری جیسی پرسکون آبادیوں کا ساکن بنا دیا ہے اوراسی لیئے قوم کی معاشی بحروں میں مدوجزر بھی ہمارے دانشوروں کے سکون میں کوئی اضطراب برپا نہیں کرتا ۔
خدا ہمیں کسی طوفاں سے آشنا کردے
ہمارے بحرکی موجوں میں اضطراب نہیں