نیزہ بازی کے کھیل کی تاریخ لگ بھگ دو ہزار تین سو پچاس سال پرانی ہے۔ تاریخ دانوں کا کہنا کہ ایشیا میں نیزہ بازی کاکھیل یورپ سے آنے والوں نے متعارف کرایا۔ 326 قبلِِ مسیح میں جب سکندرِ اعظم نے ہندوستان پر فوج کشی کی، تو اس کے گھڑ سواروں نے سب سے پہلے راجا پورس کی فوج اور ہاتھیوں کے خلاف نیزہ بازی کا استعمال کیا۔۔ گُھڑ سوار حملے سے پہلے زمین میں دبی لکڑی کے ٹکڑوں کو نشانہ بناکر حملے کی مشق کرتے، جس نے بعد میں نیزہ بازی کے مقبول کھیل کی صورت اختیار کرلی۔
ہمارے ملک میں اس کھیل کے دوران نیزے کا، جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں تلواروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
گھڑ سواری کے ذریعے نیزہ بازی کا کھیل دو طرح سے کھیلا جاتا ہے۔ ایک میں کھلاڑی انفرادی حیثیت میں شریک ہوتے ہیں جبکہ دوسرے میں بیک وقت چار گھڑ سواروں کی ٹیم نیزہ بازی کرتی ہے جسے سیکشن کہا جاتا ہے۔کھلاڑی کے سامنے زمین میں لکڑی کے ٹکڑے گاڑ دئیے جاتے ہیں، جنہیں کھلاڑی اپنے نیزے سے نشانہ بناتا ہے، اگر وہ لکڑی کے کسی ٹکڑے کو نشانہ بنانے کے بعد تقریباً دس فٹ کے فاصلے تک اپنے نیزے کو سنبھالے رکھے، تو اس کو چار پوائنٹس مل جاتے ہیں اور وہ کھیل کے اگلے مرحلے میں پہنچ جاتا ہے اور اگر وہ پہلے مرحلے میں نشانہ دُرست نہ لگا پائے، تواُسے ایک موقع اور دو پوائنٹس دئیے جاتے ہیں اور اگر گُھڑ سوار ہدف کو مکمل طور پر ٹارگٹ کرنے میں ناکام ہوجائے، تو پھر وہ مقابلے سے باہر ہوجاتا ہے۔
نیزہ بازی کا ایک اہم ترین مقابلہ فور ٹریس اسٹیڈیم، لاہور میں ہارس اینڈ کیٹل شو کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے مقابلے ہر برس، اکتوبر کے مہینے میں فیصل آباد کے نزدیک کنجوانی کے مقام پر بھی ہوتے ہیں۔گزشتہ ماہ اٹک میں میلہ جشن بہاراں2019 کے دوران نیزہ بازی سمیت کئی روایتی کھیلوں کے مقابلے ہوئے ، نیزہ بازی کے مقابلوں میں 400 سے زائد گھڑ سواروں نے حصہ لیا۔ یہ مقابلے نیزہ بازوں کے اعلی فن اور مہارت کی بنا پر یادگار ثابت ہوئے ، جنہیں شرکا اور ناظرین نے بے حد سراہا۔
ان مقابلوں کے چندروز بعد ہی خانیوال میں پاکستان کے مایہ ناز شہہ سواروں نے وطن کا نام روشن کردیا۔ان مقابلوں میں پاکستان نے نیزہ بازی میں 6 عالمی ریکارڈ قائم کئے۔
مقابلوں کا اہتمام خانیوال کے علاقے تلمبہ میں سلطانیہ اعوان کلب کی جانب سے کیا گیا۔
نیزہ بازی کے ان مقابلوں میں پاکستان کے انٹرنیشنل گھڑ سوار سلطان بہادر عزیز کی سربراہی میں ملک بھر سے آئے 120گھڑ سواروں نے 2 منٹ 40 سیکنڈ میں 90 نشانے لگائے اور 70 پوائنٹ اکھاڑکر نیا ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا۔ گھڑ سواروں نے صرف 166 سیکنڈز میں 120 گھوڑوں کو اختتامی لائن تک پہنچا کر دوسرا ریکارڈ بھی قائم کردیا۔ تیسرا ریکارڈ بیک وقت 24 گھوڑے ٹریک پر دوڑا کر بنایا گیا، اس کے علاوہ بیک وقت 6 ٹیموں نے گھوڑوں کو ایک ساتھ دوڑا کر چوتھا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ یہ ریکارڈ بنانے میں 30 ٹیموں نے حصہ لیا یہ بھی نیا ریکارڈہے اور ٹیم کا پانچواں ریکارڈ ہے۔ سنگل لائن میں 6 ٹیموں نے ایک ساتھ دوڑ کر چھٹا ریکارڈبنایا۔
ان ریکارڈز کی ویڈیوز گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو بھیج دی گئی ہے جو ان کا جائزہ لیکر پاکستان کے ورلڈ ریکارڈز کا فیصلہ کرے گا۔
نیزہ بازی کی دنیا میں جھنگ کے طالب حسین شاہ کے خاندان کابھی اپنا نام ہے، ان کا گھرانہ گزشتہ چار نسلوں سے گھڑ سواری اور نیزہ بازی کے کھیل میں جوہر دکھا رہا ہے۔ ان کے پڑدادا بابا ابراہیم شاہ نے گھوڑا سواری اور نیزہ بازی کے کھیل میں اپنے نام کا لوہا منوایا،ان کے بعد ان کے بیٹے احمد شاہ اور پھر طالب حسین کے والد امیر حیدر شاہ نے اس کھیل کے ذریعے اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔
طالب حسین نے گیارہ سال کی عمر میں 1961 میں لاہور میں ہونے والے سالانہ ہارس اینڈ کیٹل شو میں شرکت کر کے پہلا انعام حاصل کیا تھا۔اس مقابلےکی سب سے خاص بات یہ تھی کہ مقابلے کی مہمان خصوصی برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ تھیں جنہوں نے طالب حسین کی ٹیم کو چار ٹرافیاں اور پانچ ہزار روپے نقد انعام دیا تھا۔
نیزہ بازی مہم جوؤں کا کھیل ہے ، یہ عزم ، حوصلے اور مہارت کی علامت ہے، پاکستان میں اس کھیل کے انتہائی مایہ ناز کھلاڑی موجود ہیں، تاہم انہیں ان کی صلاحیتوں کی جائز پذیرائی حاصل نہیں ہوتی۔ہمارا میڈیا اور حکومت بھی اس کھیل کو جو ہمارے روشن ماضی اور قابل فخر روایتوں کا امین ہے مناسب توجہ سے نہیں نوازتے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کی جانب سے اس کھیل کی خصوصی کوریج کی جائے۔جبکہ حکومت اس کھیل کو قومی کھیل کا درجہ دیکر اس کو اس کا حقیقی مقام عطا کرے۔