نیوز چینلز کی سچی کہانیاں-پارٹ8-

بڑے چاچا دفتر میں داخل ہوئے اور آتے ہی نیوز ڈیسک پر برسنے لگے, کہ تم لوگ سو رہے ہوتے ہو, نکارا گوا میں سنک ہول بننے کی خبر سب چینلز پر چل رہی ہے ہمارے پاس کیوں نہیں ہے.. اس پر ڈیسک انچارج نے ادب سے جواب دیا کہ ” اس لئے سر کہ ہم بیس منٹ پہلے یہ خبر بریک کرکے نکل چکے ہیں ” .. یہ جواب سن کر بڑے چاچا اپنے کمرے میں جابیِٹھے..
بڑے چاچا اس ادارے میں پرانے ملازم تھے , عمر تو ان کی زیادہ نہیں تھی لیکن نہ جانے کیوں ان کا نام بڑے چاچا پڑگیا تھا..بڑے چاچا نیوز روم سے پہلے ادارے کے ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے, مالکان ان کی خدمات سے ہمیشہ مطمئن بلکہ مسرور نظر آئے تھے یہی وجہ تھی کہ چند سال پہلے مالکان نے انہیں چینل کا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا تھا, جس کے بعد چینلز کی چوبیس گھنٹے کی نشریات میں چاچا کا رنگ دکھائی دینے لگا تھا..
اس روز چاچا اپنے کمرے میں مضطرب سے نظر ارہے تھے, بار بار ادھر اُدھر دیکھنا, لیپ ٹاپ کے “کی بورڈ” پر انگلیاں لگانا, فون اٹھا کر پی سی آر اور ڈیسک پر بار بار ملا دینا, اور کچھ بھی پوچھ کر اوکے کہہ کر رکھ دینا…
چندو دور سے بڑے چاچا کی ان حرکتوں کو نوٹ کررہا تھا, چندو کو لگ رہا تھا کہ آج وہ کوئی خاص گل کھلائیں گے..
تھوڑی دیر بعد چاچا کمرے سے نکلے اور ایک نیوز کاسٹر کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے, اور اس سے آہستہ سے بولے ” یہ بتاؤ پانڈو نے آج کے بلیٹن میں کوئی مسٹیک تو نہیں کی تھی..مجھے اس کی ایک دو غلطیاں نکال کر دو , اس کی کلاس لینی ہے,ڈانٹ ڈپٹ سے بندے کو پریشر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے “..
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پانڈو ایک ڈیسک ایڈیٹر کا نام تھا جو اپنے کام میں بہترین خیال کیا جاتا تھا..
چاچا کی بات سن کر نیوز کاسٹر نے آہستہ سے جواب دیا, ” سر آج تو پانڈو سے کوئی بھنڈ نہیں ہوا, البتہ گزشتہ روز ایک دو معمولی غلطیاں ہوئی تھیں , ایک ہیڈلائن کا ٹیکسٹ غلط لکھا گیا تھا, جبکہ ایک خبر کا اوسی بھی کچھ غلط تھا”..
یہ سن کر بڑے چاچا کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہراگئی..بولے بس ٹھیک ہے, دونوں خبروں کے پرنٹ میرے آفس میں بھجوا دو…
پانڈو اس وقت کھانا کھانے کیلئے نیوز روم سے باہر گیا تھا وہ جب واپس آیا تو اسے پتا نہیں تھا کہ اس کے پیچھے کیا “گیم ” تیار ہوچکا ہے ..
پانڈو اپنی سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ ساتھی نے اسے آکر بتایا کہ بڑے چاچا نے اسے طلب کیا ہے..پانڈو ان کے کمرے میں گیا اور پھر طوفان سا آگیا, پانڈو کو انتہائی سخت اور سست القاب سے نوازا جارہا تھا.. پانڈو نے پاؤں سے کھسکا کر دروازہ بند کردیا تھا لیکن آوازیں باہر تک سنی جارہی تھیں..
پانڈو سر , سر. کررہا تھا, لیکن بڑے چاچا کوئی بات سننے کو تیار نہ تھے..ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تم نااہل ہو اور اسٹاف سے کام لینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے..نیوز روم اسٹاف اس وقت بظاہر اپنے کام میں مشغول تھا تاہم سب کے کان بڑے چاچا کے کمرے کی طرف ہی لگے ہوئے تھے..
بہرحال کچھ دیر بعد پانڈو کی کلاس ختم ہوگئی اور وہ تھکا تھکا سا باہر آتا دکھائی دیا..اور جاکر اپنی سیٹ ایک بار پھر سنبھال لی..
نیوز روم میں خبروں کی ریل پیل لگی رہتی ہے. چنانچہ پانڈو اپنے کام میں مشغول ہوکر سب بھول بھال گیا, اس وقت کئی اہم خبریں ایک ساتھ آگئی تھیں..
تھوڑی دیر بعد بڑے چاچا اپنے کمرے سے نکلے اور کہا دوسرے چینل پر شیخ رشید کا انٹرویو چل رہا ہے اس سے ٹکر کیوں نہیں لئے..اس پر اسائنمنٹ ڈیسک سے آواز آئی کہ ” سر اس لئے کہ یہ ری پیٹ پروگرام ہے “, یہ سنتے ہی بڑے چاچا “اوہ اچھا ” کہہ کر تیزی سے اپنے کمرے میں چلے گئے..
کچھ دیر بعد خبروں کا فلو کچھ کم ہوچکا تھا, بڑے چاچا بھی اس وقت نیوز روم سے باہر جا چکے تھے.. اور اب پانڈو کے گرد نیوز روم کے کئی لوگ جمع تھے اور سب کی زبان پر ایک ہی سوال تھا.. ” خیر تو ہے پانڈو اس وقت کیا ہوا تھا ؟
ختم شد..
(نوٹ : یہ مشہور نیوز چینلز کی سچی کہانیاں ہیں،جو اسٹاف کے زرائع سے ملتی ہیں.. ان کہانیوں میں نام اور عہدے فرضی رکھے جاتے ہیں۔ جبکہ واقعات حقیقی ہوتے ہیں..)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں