تحریر: نسیم الحق زاہدی۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہترین محل وقوع ،بے بہا نعمتوں ،صلاحیتیوں اور وسائل سے مالا مال کیا ہے ،ایک طرف آسمان کو چھوتی بلند وبالا چوٹیاں ہیں تو دوسری طرف وسیع سمندر اور ساحلی علاقہ ،ہمارے پاس سیکڑوں میل پر پھیلے ،ہرے بھرے ،وسیع وعریض سونا اگلتے سبزہ زار بھی ہیں تو صحرائوں کا حسن بھی اپنی مثال آپ ہے ،جہاں چاندنی راتوں میں مورناچتے اور زندگی کے رنگ بکھیرتے ہیں۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اپنے قدرتی وسائل اور اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اوپر سے اسی صوبے میںسی پیک(چین پاکستان اقتصادی راہداری) جیسے منصوبے نے بلوچستان میں ترقی کی نئی راہیں کھول دی ہیں،یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کی معاشی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے بلکہ اس نے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کو ملکی معیشت میں ایک بنیادی حیثیت دینے کے مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔یہ منصوبہ چین اور پاکستان کے تعلقات کی مضبوطی اور خطے میں پاکستان کے معاشی استحکام کی علامت بن چکا ہے۔
گوادر پورٹ پاکستان کے لیے تجارتی ترقی کادروازہ ہے۔خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ بندر گاہ پاکستان کو نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔اس بندرگاہ کے ذریعے چین وسطی ایشیا کے ممالک خلیجی ممالک تک بآسانی رسائی میسر آئے گی،جس سے پاکستان کو سالانہ لاکھو ں ڈالر کا تجارتی فائدہ پہنچے گا۔گوادربندر گاہ نہ صرف پاکستان کو اقتصادی استحکام دے رہی ہے بلکہ یہ بلوچستان کی معاشی خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔سی پیک منصوبہ نے بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہوں پر گامزن کردیا جو صوبے کے مختلف شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کررہا ہے۔یہ منصوبہ محض بنیادی ڈھانچے کی تعمیر تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان کی صنعتی ،معاشی ،سیاسی ،تعلیمی اور صحت کے شعبوں میں وسیع تبدیلیاں لارہا ہے۔
سی پیک کے تحت گوادر پورٹ اور اس سے جڑے صنعتی زونر کی تعمیر سے بلوچستان میں صنعتی ترقی کو فروغ ملا ہے ۔ان صنعتی زونر میں سرمایہ کاری سے نہ صرف روزگار کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں بلکہ بلوچستان کی معیشت بھی مستحکم ہوئی ہے ۔گوادر توانائی کے منصوبوں ،جیسے حب کوئلہ پاور پلانٹ نے توانائی کے بحران کو حل کرتے ہوئے صنعتوں کو مستقل بجلی فراہم کی ہے ،جس سے صنعتی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔نئی سڑکوں کی تعمیر سے مقامی وبین الاقوامی کاروباری افراد کو نئی منڈیوں تک رسائی ملی ہے۔اس کے علاوہ مکران کوسٹل ہائی وے جس کی لمبائی 653کلو میٹر ہے جو گوادر کو کراچی سے پسنی ،اورماڑہ ،لسبیلہ کے ذریعے ملاتی ہے اور بحیرہ عرب ایران اور وسطی ایشیا تک رسائی فراہم کرتی ہے،اس نے صوبے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔اس کے علاوہ قراقرم ہائی وے جیسے منصوبوں نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں کو تجارتی نیٹ ورک سے جوڑا جس سے تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔بلوچستان میں حکومت پاکستان کے ’’ویژن بلوچستان2030‘‘کے تحت کمیونی کیشن انفراسٹر کچر ،ڈیموں کی تعمیر ،پانی کی قلت کو دور کرنے اور فشریز کے مختلف منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔خوشحال بلوچستان کی تعمیر وترقی میں حکومتی اور عسکری کاوشوں کا کلیدی کردار ہے ۔
سی پیک ،سیندک اور ریکوڈک منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا ہے ۔نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیمی مواقع فراہم کیے جارہے ہیں ،متعدد یونیوسٹیوں اور میڈیکل کالجز کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے ۔اس کے علاوہ سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نے بلوچستان کے سیاحتی مقامات کو دنیا کے سامنے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مکران کوسٹل ہائی وے اور گوادر کے ارد گرد کے علاقوں کی ترقی نے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے ،ہنگول نیشنل پارک ،جیونی اور بلوچستان کے دیگر قدرتی تاریخی مقامات تک رسائی آسان ہونے کی وجہ سے مقامی وبین الاقوامی سیاحت میں اضافہ ہوا ہے ۔جس سے مقامی معیشت کو فائدہ پہنچا ہے۔بلوچستان اب ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے ،اور یہی بات ملک دشمن عناصر،دہشت گرد تنظیموں کو کسی صورت قبول نہیں کہ بلوچستان ترقی کرے،کیونکہ وہ بلوچستان کی پسماندگی کے نام پرہی تو بلوچ عوام کو گمراہ کرتے ہیں ۔ اس لیے ان ترقیاتی منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے انجینئرز ،مشینری اور مزدوروں کو نشانہ بنا یا جاتا ہے ۔چندروز قبل پنجگور میں ڈیم کی حفاظت پر مامور پانچ سیکورٹی اہلکاروں کا قتل بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔مگر دوسری طرف عسکری قیادت میں بلوچ نوجوانوں کی بڑھتی تعداد اور دلچسپی دشمن عناصر کے منہ پر طمانچہ ہے۔واضح رہے کہ محب وطن بلوچ عوام ،ملک دشمن عناصر کے جھوٹے بیانیے کو مسترد کرچکی ہے۔میرا بلوچستان ۔خوشحال بلوچستان۔