حرف اور مولوی سے رشتہ بغدادی قاعدے کیساتھ شروع ہوا، اردو حروف کو عربی مخرج کیساتھ ادا کرتے سفید لباس اور اس سے زیادہ سفید داڑھی میں مولوی صاحب ذرا بھی پسند نہ آئے۔ ایسا لگا جیسے ازاد پنچھی کو قاعدے کے پنجرے میں قید کیا جا رہا ہو۔ والدین کی سخت ہدایت، مولوی صاحب کی عزت و تکریم لازم اور ہاں شکایت کا موقعہ نہیں ملنا چاہیئے، سو مجبوری ٹہری۔
ناظم آباد کی متوسط بستی کی حیدری مسجد میں دس، پندرہ بچے اوربچیاں ایک ساتھ آگے پیچھے جھولتے سبق یاد کرتے تھے۔ مولوی صاحب کے دائیں ہاتھ پر ایک چمکتی چھڑی دھری رہتی تھی، غلطی پر غصے سے شاگرد کو ہاتھ آگے کرنے کا کہتے مگر چھڑی ہمیشہ فرش پر پڑتی، جتنا غصہ چھڑی اتنی ہی زور سے فرش پر ماری جاتی اور بچہ چٹاخ کی آواز سے ہی سہم جاتا۔ کچھ بچے پڑھائی کم اور شرارتیں زیادہ کرتے تھے میں بھی انہی میں شامل تھا، ایک شام گھر پہنچے تو دو تھپڑ پڑے، وجہ یہ کہ مولوی صاحب نے شکایت کی تھی۔ دوسرے دن روٹھے روٹھے مسجد گئے، تھوڑی دیر بعد مولوی صاحب کو بھی موڈ کا اندازہ ہو گیا، پیار سے پوچھا میاں کیوں چپ ہو، کیا ہوا؟ ڈرتے ڈرتے بتا دیا جو کچھ ہوا آپ کی شکایت پر ہوا، مولوی صاحب کی مسکراہٹ یکلخت غائب اور چند لمحے خاموشی کے بعد سبق کی گردان دوبارہ شروع ہو گئی۔ اسی شام مولوی صاحب ہمارے گھر پہنچے، بڑے بھائی کو کہا میاں یہ کیا کیا آپ نے، کوئی بچے کو مارتا ہے، بھلے آدمی میں نے سمجھانے کو کہا تھا، مارنا ہوتا تو یہ کام خود کر لیتا۔ یہ پیار محبت کا کام ہے، دین میں تو ویسے بھی جبر کی کوئی گنجائش نہیں، بھیا سر جھکائے بس جی مولوی صاحب، جی مولوی صاحب، آئندہ نہیں ہو گا گردان کرتے رہے اور میں دروازے کے پیچھے چھپا حیرت سے سنتا رہا۔ یقین جانیے بھیا کو شرمندہ دیکھ دل ایسا شاد ہوا کہ تھپڑوں کا سارا دکھ دور ہو گیا۔ دوسرے دن قاعدہ اٹھائے مسجد پہنچا تو یقین تھا کہ مولوی صاحب احسان جتائیں گے، مگر کچھ بھی نہیں، سفید ملبوس اور اس سے بھی زیادہ اجلی مسکراہٹ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، بس اسی لمحے مجبوری احترام میں بدل گئی۔ دنیا کے جھمیلوں میں الجھ کر دور نکل آیا مگر دھیمے دھیمے مسکراتے مولوی صاحب آج بھی دل میں بستے ہیں، والدین کی فاتحہ کیلئے جب بھی ہاتھ اٹھاتا ہوں، مولوی عباس چھولسوی کو نہیں بھولتا۔
حضور، عالم اور استاد کی عزت کا درس بچپن سے ملا بلکہ ایسا ملا کہ عرصے تک صرف علما دین کو ہی عالم جانتا رہا، میری نسل کے شاید بہت سے لوگوں کو خاصا بڑا ہونے پرپتہ چلتا ہے کہ عالم نہ صرف دیگر شعبوں کے ہوتے ہیں بلکہ وہ بھی عزت و تکریم کے حقدار ہیں۔ سو بچپن سے لفظ مولانا اور داڑھی کی دل پر ایسی دھاک بیٹھی کہ مولانا الطاف حسین حالی، مولانا حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالستار ایدھی، سرسید کی لمبی داڑھی کے باعث انہیں بھی مولانا سمجھتا رہا، تھوڑے عرصے تو ٹیگور کو بھی اسی زمرے میں رکھا ویسے ڈارون اور مارکس بھی اپنے اپنے سے لگتے تھے۔
خیر جناب پینتیس، چالیس سال پہلے ایسے مولوی صاحبان تمام محلوں کے مسیحا ہوا کرتے تھے، سو اسے آپ بیتی نہیں بلکہ جگ بیتی جانیے۔ پڑوسیوں کے جھگڑے، شرعی اور گھریلو مسائل کا حل، دعا اور دوا، زندگی کی الجھی ڈوروں کو دھیمے دھیمے سلجھاتے، سب بصد احترام فیصلوں پر سر تسلیم خم کرتے تھے۔ اس زمانے میں ملا، مولوی یا زیادہ سے زیادہ مولانا ہوا کرتے تھے، شیخ الاسلام، امام المشائخ، حجت الاسلام، شیخ الحدیث، علامہ و شمس العلما نادرو نایاب تھے، مفتی اور مجتہد بھی کم کم ہوا کرتے تھے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ مولوی اور ملا بھی ہمارے اور آپ جیسے ہوتے تھے، القاب و آداب کے کلف میں لپٹے اتنے بھاری بھرکم نہ تھے جیسے اب ہیں۔ ہری، کالی، سفید، کتھئی مسلکانہ شناختی پگڑیاں بھی ایجاد نہ ہوئی تھیں، مولوی کسی بھی فرقے کا ہو نرم لہجہ، بلند کردار، ہمدرد، شفقت، ایثار اور حسن سلوک کا پیکر ہوا کرتا تھا۔
ملا کو تو چھوڑیں، مساجد بھی عوامی ہوا کرتی تھیں، کچھ کچی کچھ پکی، چھوٹی دیواریں، بندوں کے محلوں میں اللہ کا گھر بندوں جیسا ہی ہوتا تھا۔ مدارس کا چلن نہ تھا، مساجد سادہ اور کشادہ، در بلاتفریق فرقہ و مسلک ہر سجدہ گزار کیلئے کھلا ہوتا تھا۔ ہم لڑکوں کا گروپ جو مسجد قریب ہوتی بلاتفریق مسلک نماز پڑھنے چلے جاتے، ہاتھ باندھنے والی مسجد میں کھول کر اور کھول کر نماز پڑھنے والی مسجد میں ہاتھ باندھ کر بارہا نماز پڑی، نہ کسی نے روکا نہ ٹوکا بلکہ گھورا تک نہیں، نہ ہی ملامتی خطبہ دیا۔ مساجد واقعی اللہ کا گھر اور عافیت کا در تھیں، مسافروں کو کھانا مل جاتا تھا، تھکے ہارے لوگ نیند پوری کر لیتے تھے۔ پھر کچھ ہوا یوں کہ مسجد کے زیر سایہ خرابات کی مانند رفتہ رفتہ دکانیں نکلنا شروع ہوئیں، پیسہ آیا تو انتظامی کمیٹیاں اور ٹرسٹ وجود میں آئے۔ مولویت اپنائیت کے دائرے سے نکل کر وی آئی پی منزلوں کی جانب رواں ہوئی، مسکراہٹ کی جگہ خشونت، شفقت کی جگہ رعونت، مساجد جیسے جیسے مالدار و شاندار ہوتی گئیں مسلکی قبضوں کی جنگ بھی بڑھتی گئی۔ پھر کچھ ہوا یوں کہ اسرار غیبی سے مذھب کی تبلیغ میں خطیر فنڈز آنا شروع ہو گئے، سو مذھب کاروبار اور مساجد دکانوں زیرسایہ چھپ گئیں۔ مولوی اتنی بلند مسند پرجا بیٹھا دیکھو تو ٹوپی گر جائے۔ 1979 میں روس افغانستان میں آیا اور افغان مہاجرین پاکستان، دیکھتے ہی دیکھتے مساجد قلعے اور مدارس فرقہ وارانہ فصیلوں میں تبدیل ہو گئیں، ملا کا مزاج بھی افغانی ہو گیا۔ خیر مسالک اور فرقے تو پہلے بھی تھے مگر عقائد کی تقسیم در تقسیم نے نفرت کے شعلوں کو بھڑکا دیا، حجاز و فارس نے خزانے کے منہ کھول دیئے، ریال درہم و دینار کی ریل پیل میں اللہ کی رسی کب ہاتھ چھوٹی پتہ بھی نہ چلا۔ ایسے میں سانحہ نو گیارہ نے ڈالرز کی برسات کر دی، نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر نت نئے عقائد و فرقوں کے قتال عام میں مسلم بھی کہیں کھو گیا۔
حور و غلمان کے تذکرے تو تب بھی تھے مگر اتنے مفصل و مسجل نہ تھے کہ حواس مختل ہو جائیں۔ مولانا طارق جمیل تو خیر وضعدار شخصیت ہیں، ن م راشد کی طرح خدوخال پر اکتفا کر جاتے ہیں، یقین جانہیں کبھی کبھار خطبہ حوریہ سنتا ہوں تو وائٹل اسٹیٹسٹکس سمیت جنتیوں کیلئے ایسی ایسی مرقع و مسجع بشارتیں سنائی جاتی ہیں کہ اجنتا اور ایلورا کی بے سترمورتیاں بھی خودکش جیکٹ پہننے کیلئے مچل جائیں۔ ایسے دلکش اور ہوشربا خطبے سننے کے بعد سمجھ آئی کہ شیخ الجبال حسن بن صباح کی زمینی جنت سے چند روز سیراب ہونیوالے کیسے ایک اشارے پر ہنستے کھیلتے جی جان سے گزر جاتے تھے۔
حضور، ملا سیاست میں تو پہلے بھی تھے اب بھی ہیں، مولانا مودودی، مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتی محمود، مولانا عبدالحق، مولانا نورانی، مولانا عبدالستار نیازی خلیق و مہرباں، نفیس و شائستہ، پروفیسر غفور، قاضی حسین احمد گو کہ مولانا نہ تھے مگر کردار وہی تھا۔ موجودہ صورتحال پر کیا کہوں ناگہانی فتووں سے ڈر لگتا ہے۔ بقول افتخار عارف
رحمت سید لولاک پر کامل ایماں
امت سید لولاک سے ڈر لگتا ہے
بہرحال یہ تو سچ ہے کہ اب مذھبی جماعتوں کے بغیر پاکستان کی سیاست محال ہے، بھلا اقبال سے کیسے پوچھا جائے کہ دین و سیاست تو یکجان ہیں مگر چنگیزی نہیں جاتی۔ یقین جانیں اس کے باوجود میں ہر فرقے اور مسلک کے مولوی کی عزت کرتا رہا ہوں مگر جناب اب تو چیختی، چنگھاڑتی چنگیزیت ابے تبے، اوئے خادما اور پین دی سری تک جا پہنچی ہے۔
جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ مولا جٹ دیکھا تھا اب ملا جٹ دیکھ رہے ہیں۔ بھائی میرا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ اپنی اولاد کو مولوی کی عزت کا درس کس منہ سے دوں؟ آخر کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔