ہر ظلم کی تو فیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسہ
پاکستان کیسی بستی ہے جہاں آئین ،قانون، پارلےمنٹ ، عدالتیں اور پولیس سب کچھ موجود ہے لیکن انصاف غائب قصورمیں زینب اور مردان میں عاصمہ کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد زیادتی اور بہمانہٰ قتل جیسے سینکڑوں مظالم میں سے صرف دو کی کہانی ہے کچھ لوگ صبر شکر کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ دیواروں سے سر ٹکراتے ہیں ۔ کچھ زیادتی شدگان کے اہل خانہ شاہرا ہ د ستور کی بغلی پہاڑی پر بیٹھے قانون و انصاف کو پکارتے ہےں ۔ لیکن ان کی آوازیں مقدس ایوانوں کی چھتوں سے ٹکراتی ہیں اور مارگلہ کی پہاڑیوں میں تحلیل ہو جاتی ہیں ۔ کہا جاتا ہے 21کروڑ انسانوں کا مہذب معاشرہ ہے ۔ یہاں ایک آئین نام کی چیز بھی ہے جس کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی ضمات دی گئی ہے ۔ ایوان بالا عدل و قانون پر اربوں روپے صرف کئے جار ہے لیکن پھر بھی کوئی نہیں جو ان غم زدہ لوگوں کی دستگیری کرے ۔ قومی اسمبلی نواز شریف کی پارٹی صدارت کے لئے جس طرح متحرک ہوئی تھی ۔ کاش وہی اسمبلی یہ بھی سوچے کے معصوم زینب اور عاصمہ کے حقوق کے لئے بھی قانون سازی کرنی چاہیئے تا کہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے ۔ زینب کے واقعے کو دس دن ہو گئے کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ انصاف کو زمین کھا گئی یا پھر آسمان نگل گیا۔ ہم معصوم روح زینب اور عاصمہ کو کیا بتائیں ابھی تھوڑا صبر اور کرو ابھی محافظان قانون و عدل اور وارثانِ ممبرو محراب اپنی پارٹی صدارت بل کی پیوند کاری میں مصروف ہیں ۔ فارغ ہوتے ہی اولین ترجیح میں تمھارے قاتلوں کو تلاش کر لائیں گے ۔
جو حکمران یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ایسے ہی نظام حکومت چلتا رہے گا اور راوی چین ہی چین لکھتا رہے گا۔ وہ در حقیقت احمقوں کی جنت کے مستقل رہاہشی ہیں۔بہت جلد جوتیوں میں دال بٹنے شروع ہونے والی ہے۔اﷲکی لاٹھی جب پڑتی ہے تو آواز نہیں نتائج دیتی ہے اور یہی قانون قدرت ہے۔