بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا۔ اس شہہ رگ کو پنجہ ہنود سے چھڑانے کے لیے ہم نے “جہاد”کا بھاری پتھر توچوم کر ایک طرف رکھ دیا اور اپنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیئے۔
مقبوضہ کشمیرمیں تنہا رہ جانے والا سید ہ زادہ گنگ وادیوں میں اذان دے رہا ہے۔ لہو بہہ رہا ہے۔عصمتیں لٹ رہی ہیں ۔ہمالیہ کا آسمان اعتمادافزاء اقدامات کا قافلہ نوبہار اس صحرائے بے برگ وبارتگ آن پہنچا ہے ۔جو اس کا مقدر بنادیاگیاہے۔
تحقیق کا شغف رکھنے والا کوئی طالب علم میری مدد کرے اور بتائے کہ 4جنوری 2004ء سے اب تک پاک بھارت مذاکرات کے کتنے راؤنڈ ہو چکے ہیں۔ کن کن موضوعات پر بات چیت ہوئی؟ اس بات چیت کا کیا نتیجہ نکلا ۔ اب تک کتنے اور کون کون سے اعتماد افزااقدامات ہو چکے ہیں؟
یا کسی تجربہ و تحقیق میں غوطہ زن ہونے کے بجائے ان سوالوں کے “ہاں “یا”نہ میں جواب دیجئے ۔
کیا بھارت نے اپنے دیرینہ موقف سے رو گردانی کرلی ہے؟ روگردانی تو خاصا کڑا لفظ سے ہے۔ کیا بھارت نے ادنیٰ سی لچک بھی دکھائی ہے؟ کیا وہ اپنے کھونٹے سے بال برابر بھی ادھر اٌدھر ہوا ہے؟ کیا اس نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کو رتی بھر رعایت بھی دی ہے؟ اور پھر ان سوالوں پر نظر ڈالئے کیا پاکستان اپنے دیرینہ اصولی موقف پر قائم ہے؟ کیا وہ آج بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہی مسلۂ کشمیر کی کلید خیال کرتا ہے ؟ کیا آج بھی اس کا مطالبہ یہی ہے۔کہ مسلۂ کشمیر حل کئیے بغیر تعلقات معمول پرآسکتے نہ دوستانہ مراسم استوار ہو سکتے ہیں۔
ان سوالات کے جواب سے بخوبی اندازہ ہو جائیگا کہ ہم کہاں سے پہلے چلے تھے اور کہاں آگئے ہیں ۔
نائن الیو ن کو نیوپارک کے دوسربہ فلک ٹاور نشانہ بنے ہم ہزاروں میل دور بیٹھے تھے لیکن نہ جانے ہمارا کیا کیا کچھ ان کے ملبے تلے دب گیا ۔ کھو جانے والے ان قیمتی اثاثوں میں سے ایک کشمیر بھی تھا۔ خوف کے آسیب نے آن واحد میں ہمیں ایک بے تنگ و نام جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا ۔ ہم فیصلہ کرنے سے پہلے سوداکا ری کر سکے نہ فیصلہ کرنے کے بعد سودوزیاں کا کوئی گوشوارہ مرتب کر سکے . بھارت کی حکمت عملی یہی کہ وہ باہمی دوستی اور اعتماد افزاء اقدامات کی پھلجھڑیاں چھوڑتا رہے گا۔لاری اڈوں اور بسوں کے تماشے لگاتا رہے گا۔پاکستان کوآنے والے دریاؤ ں پر ڈیم بناتا رہے گا۔ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلتا رہے گا۔مقبوضہ کشمیر چیخ رہا ہے۔
نہ بزرگوں کے خوابوں کی تعبیر ہوں
نہ میں جنت سی اب کوئی تصویر ہوں
جس کو مل کر کے صدیوں سے لوٹا گیا
میں وہ اجڑی ہوی ایک جاگیر ہوں
ہاں میں مقبوضہ کشمیر ہوں ہاں میں مقبوضہ کشمیر ہوں
میرے بچے بلکتے رہے بھوک سے
یہ ہوا ہے سیاست کی اک چونک سے
روٹیاں مانگنے پر ملیں گولیاں
چپ کرایا گیا ان کوبندوق سے
نہ کہانی ہوں نہ کوئی قصہ ہوں میں
میرے پاکستان تیرا ایک حصہ ہوں میں
یوں میرے حوصلے آزمائے گئے
میری سانسوں پہ پہرے بٹھائے گئے
پورے بھارت میں کچھ بھی کہیں بھی ہوا
میرے معصوم بچے اٹھائے گئے
یوں اجڑ میرے سارے گھروندے گئے
میرے جذبات بوٹوں سے روندئے گئے
جس کا ہر لفظ آنسو ں سے لکھا گیا
خوں میں ڈوبی ہوئی ایسی تحریر ہوں
ہاں میں مقبوضہ کشمیر ہوں ہاں میں مقبوضہ کشمیر ہوں