یہ کراچی ہےجسے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ساتھ ہی ملک کاتجاری، صنعتی اور اقتصادی مرکز بھی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ بھی کراچی کے پاس ہے. کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔۔ پاکستان بننے کے بعد 1960 تک پاکستان کا دارالحکومت کراچی ہی تھا۔۔
یہاں ہر رنگ و نسل ہر مسلک و مذہب کے پاکستانی بغیر کسی تعصب کے آپس میں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔گوروں نے انیسویں صدری میں شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیاد ڈالی اس وقت سے ہی شہر میں ملک سے لاکھوں مہاجرین نے روزگار کے لئے کراچی کا رخ کیا۔ اسی طرح اس شہر کا دل بہت وسیع ہے اور اس شہر کی بڑی آبادی دیگر شہروں سے آئے پاکستانیوں کی ہے جو برسوں سے یہاں روزگار کماکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
کراچی کوروشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے مگر اس کے باوجود بھی شہر قائد کے ساتھ جو سوتیلا سلوک کیاجاتا ہے اس کی بھی نظیر نہیں ملتی. سندھ حکومت کو پورے صوبے خاص طور پر کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں. جبکہ وفاق بھی یہاں اپنا ووٹ بینک نہ ہونے کی سزا اس شہر کو دے رہا ہے،جس شہر سےوہ ستر فیصد ریونیو بٹورتا ہے.
.شہر قائد کےاگر خواص گنے جائیں تو ایک طویل فہرست ہے اسی طرح کراچی کے غم بھی کسی طرح کم نہیں ہیں۔ سالہاسال تک یہاں روزانہ کی بنیاد پرانسانوں کا قتل عام ہوا کس نے کس کو کیوں مارا اس کا کبھی پتہ نہ چل سکا نہ شاید کبھی معلوم ہوسکے گا۔ سیاسی، مسلکی لسانی بنیادوں پر ہزاروں قتل ہونے والے افراد کی لاشوں کا ملنا معمول بن گیا.
اب تو رب کا بہت شکر ہے کہ کراچی والے رات کو واپس اپنے گھر بخیر و عافیت پہنچتے ہیں۔ مگر ان ہزاروں مقتولین کے لواحقین آج تک اپنے پیاروں کے قتل کے اسباب اور قاتلوں کی گرفتاری کے منتظر ہیں
اسی طرح سے کراچی کو ملک کا انتہائی آلودہ اور گندگی کا ڈھیر شہر کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ہر جگہ گندگی کے ڈھیر شہریوں کے لئے مختلف بیماریوں کی اہم وجہ اور کراچی میں صحت کے مراکز کو کامیاب کاروبار بنانے کا بہترین ذریعہ بن چکے ہیں۔ پہلے کراچی کی عوام نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنتے تھے اور اب گندگی اور غلاظت کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہوکرجہان فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ شہریوں کو پینے کے لئے ملنے والا انتہائی آلودہ پانی ہے جو لوگ تعفن اورگندگی سے بچ جاتے ہیں وہ انسانی فضلہ ملا انتہائی زہریلا پانی پی کر اسپتالوں میں پہنچ جاتے ہیں پاکستان کے دیگر شہر آبادی اور رقبے میں کراچی سے بہت پیچھے ہیں مگر کراچی مسائل میں سب پر بازی لے جاچکا ہے نہ کوئی پلاننگ نظر آتی ہے نہ کوئی بہتری کی امید نظر آتی ہے۔
سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے شہری سب سے زیادہ لاچار ہیں۔ ٹریفک کا نظام الگ تباہی کا شکار ہے کبھی کبھی تو شہریوں کا پندرہ منٹ کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوجاتا ہے ٹریفک سگنل اکثر نظر نہیں آتے اور اگر نظر آبھی جائیں تو بند ہی ملتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہوتی جارہی ہے۔ کب پورے شہر کو چنگ چی رکشاؤں کے حوالے کیاگیا کسی کو کوئی علم نہیں نہ کوئی ہوچھنے والا نہ روکنے والا۔ بڑے بڑے شاپنگ مال تو بن رہے مگر پارکنگ کا کوئی انتظام نہیں۔ یہ میٹروپولیٹن سٹی اب مسائلستان بن چکا ہے
ان مسائل کو حل کے لئے کوئی سیاسی جماعت کراچی سے مخلص دکھائی نہیں دیتی اورتو اور اب یہ شہر سیاسی لحاظ سے بھی یتیم ہوچکا ہے ایم کیو ایم جس نے برسوں کراچی پر بلا شرکت غیرے راج کیا اب اپنے آپسی اختلافات کی وجہ سے تقسیم در تقسیم ہوچکی ہے.پی ایس پی بھی ایم کی ایم کی برانچ ہی کہی جاتی ہے جو اہنے آغاز میں تو مقبول ہوئی مگر اب عوامی حلقوں میں اس کے لئے کوئی خاطر خواہ پزیرائی نظر نہیں آتی.
پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کی تو بڑی جماعت ہے مگر کراچی کے شہری پیپلز پارٹی کو اپنی نمائندہ جماعت تسلیم نہیں کرتےوہ صرف لیاری تک ہی محیط رہی…پاکستان تحریک انصاف کا بھی اب ایسا ہی کچھ حال ہے کیونکہ عمران خان کی نگاہیں مسند اقتدار کےلئے صرف اور صرف پنجاب پر گڑھی رہتی ہیں انکا بھی کراچی سے کوئی خاص لگاؤ دکھائی نہیں دیتا باقی حکمران جماعت ن لیگ کو کبھی کراچی سیاست کے لئے موزوں لگا ہی نہیں. پہلے جماعت اسلامی یہاں کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی ہوا کرتی تھی مگر جماعت کی عدم الچسپی کے باعث اب شہر سےجماعت اسلامی کا بھی نام و نشان مٹتا دکھائی دیتا ہے…
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اس غریب پرور شہر کا آخر کیا قصور ہے؟کیوں کوئی آگے نہیں آتا کیوں کوئی کراچی والوں کو اپناتا نہیں ہے؟کہنے کو تو ہر کوئی کراچی کا دعوےدار بن جاتا ہے مگر یہاں کے مسائل کو کوئی حل کرنے پر راضی نہیں…کسی کو اس شہر کی بلکل بھی فکر نہیں…..یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ اور یہ ظلم کب تک ہوتا رہے گا؟؟؟کسی کے پاس شاید جواب نہیں ہر کوئی اپنی مستی میں مست ہے …. مگر کراچی کی عوام روز کہتی ہے کہ….. مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا….