موسیقی روح کی غذا یا سزا؟ ( محمد راشد)

یہ جملہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ” موسیقی روح کی غذا ہے ” ۔ کسی نے اپنی رائے کا اظہار کیا،کسی سائنسدان نے اس پر تحقیق کی یا کسی شخص نے اپنے مشا ہدے کی روشنی میں یہ جملہ کہا،مجھے اس کا علم نہیں،لیکن ہاں! کچھ عرصے قبل اس جملے پر مشاہدے کی غرض سے روح کی تسکین حاصل کر نا چا ہی تو یقین جانئے ،روح کو تسکین یا غذا حاصل کرنا تو درکنار ،روح کو سکون تک میسر نہ ہوا ۔موسیقی سننے کے دوران جسم اور دماغ میں جھنجناہٹ سی محسوس ہوئی ،یک دم ذہن قرآن پاک کی اس آیت مبا رکہ کی طرف متوجہ ہوا جس میں اللہ رب العالمین نے اپنوں بندوں سے ارشادفر مایا کہ “بے شک دلوں کا چین /سکون اللہ پاک کے ذکر میں ہے ” ۔اس آیت مبا رکہ کی روشنی میں مزید رہنمائی درکار تھی تو معا شرے میں ایسی نامور شخصیا ت پر نظر پڑی جو کل تک ” مو سیقی کو روح کی غذا” سمجھ کر زندگی کا اکثر حصہ اس ” غذا” کے حصول میں مگن رہے لیکن زندگی بھر ناکامی کے بعد بالآ خر اسی رب العالمین کی بارگاہ کی طرف لوٹے جس رب العالمین نے اپنی پاک اور سچی کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں فرمایا کہ “بے شک دلوں کا چین /سکون اللہ پاک کے ذکر میں ہے ” ۔
بلا شبہ قر آن پاک کی یہ آیت معاشرے میں ایسے نو جوانوں اور شخصیات کےلئے انتہائی اہمیت کی حامل اور وہ مشعل ہے کہ جس کی روشنی میں وہ اپنے اور دوسروں کے دل و دماغ اور روح کو سکون بخشنے میں بے مثال کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ موسیقی اور روح کا ملاپ کسی شخص کا اپنا خیال /رائے تو ہوگی لیکن حقیقت بالکل نہیں۔اس کی اگرچہ کئی وجوہات ہمارے سامنے ہے ان میں کچھ حقیقت پر منبی کچھ حقائق آپ کی نذر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو مو سیقی کو روح کی غذا تصور کرتے ہوئے آلات موسیقی سے دلچسپی رکھتے ہیں ،انہیں خرید کر اپنے گھر کی زینت بناتےہیں ،اپنی خواب گاہوں میں سجاتے ہیں ،یہاں تک کہ سونے سے پہلے بے چینی کی کیفیت میں روح کی غذا کا ساماں کر رہے ہو تے ہیں،با وجود اس کے روح کی غذا کے حصو ل میں ناکام دکھائی دیتے ہیں،یہ ایک یا دو نوجوانوں کی نہیں بلکہ لا تعداد نوجوانوں کی خو ش فہمی یا یوں کہئے کہ غلط فہمی ہے۔
نوجوانوں کے ذہنو ں میں مو سیقی سننے کا جنون سوار ہے ،ذہنی سکون کے لئے لوگ موسیقی کی محافل سجاتے ہیں اور انہیں محافل میں رقص و سرور کا بھی خو ب اہتمام کیا جاتا ہے ، قلب کی تازگی کے لئے سازگار ماحول تیار کیا جاتا ہےلیکن سکون پھر بھی دور رہتا ہے کیونکہ جس سکون کے متلاشی موسیقی کی محافل کا سہارا لیتے ہیں وہ سکون دراصل موسیقی میں نہیں بلکہ “اللہ رب العالمین کے ذکر ” میں ہے ۔جو اپنے پیا رے مذہب کو نظر انداز کر کے غیر مذہب کی طرز زندگی کو اپنانے میں اپنا رات دن ایک کیئے ہوئے ہیں ۔ میری ان تما حضرات سے مودبانہ التماس ہےکہ خدا را !
غیر مذاہب کے رسم و رواج کوپروان چڑھانے اور ان کے بیانئے کو فروغ دینے کے بجائے اپنے دین اسلام کے بتا ئے ہوئے اصول اور طرز زندگی کو اپنانے اور اسے فروغ دینے کی کوشش کریں تا کہ نوجوان نسل میں اپنے دین سے محبت کا جواز پیدا ہو ۔
آخر میں موسیقی کو روح کی غذا کے منافی ایک بات کہہ کر اپنی اس مختصر تحریر کا اختتام کرنا چا ہوں گا کہ جب انسان بستر مرغ پر ہوتا ہے تو اسے تلاوت قرآن پاک پڑھنے یا سنانے کی ترغیب دی جاتی ہے تا کہ انسا ن کو وقت نزع کی تکالیف بجائے عافیت کی مو ت نصیب ہو ۔یہ لمحہ ان لوگوں کے لئے لمحہ ء فکریہ ہے جو مو سیقی کو روح کی غذا کہتے ہیں وہ موت کے کیوں مو سیقی سے اجتناب برتتے ہیں ۔لہذایہ بات حقیقی طور مان لینی چا ہئے کہ مو سیقی روح کی غذا نہیں بلکہ” موسیقی روح کی سزا” ہے ،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔اللہ پاک ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے ۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں