پاکستان کو قدرت نے ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے، جس میں سنگلاخ پہاڑ، بلند و بالا چوٹیاں، بے آب و گیاہ صحرا، آبشاریں، دریا، سمندر، ہریالی، چار موسم، پھل، سبزیاں اور معدنیات شامل ہیں، سندھ ہو یا پنجاب، پختونخواہ ہو یا بلوچستان، سب کی اپنی تاریخ، روایت، ثقافت اور تہذیب ہے، مادر وطن کے سارے رنگ ڈھنگ منفرد اور نرالے ہیں۔
اس بار ہم نے وادی مہران سندھ کی پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب موئن جو دڑو کا رخ کیا، جو لاڑکانہ سے چھبیس کلومیٹر کی دوری پر ہے، اپنے والد محترم یوسف خان، ماموں سعید انور خان اور چھوٹے بھائی ذیشان خان نے کراچی سے لاڑکانہ کا رخت سفر باندھا اور تین سو بائیس کلومیٹر کا سفر ساڑھے چھ گھنٹوں میں طے کیا۔
لاڑکانہ پہنچے تو ہمارے محترم بھائی اور جنگلی حیات کے محافظ وائلڈ لائف لاڑکانہ ڈویژن کے ڈپٹی کنزرویٹر صاحب زادہ میر اعجاز تالپور صاحب نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہمیں اپنے ساتھ سڑک کنارے واقع ڈھابہ ہوٹل پر لے گئے، جہاں ہم نے کھلی فضاء اور پرسکون ماحول میں گرما گرم چائے کی چسکیاں لیں، جس کےبعد اعجاز ٹالپور نے ہمیں اپنے اسٹاف نیاز جوکھیو کے ہمراہ موئن جو دڑو کیلئے رخصت کیا اور وہاں کے ذمہ دار ارشد صاحب کو ہماری رہنمائی کا کہہ دیا۔
موئن جو دڑو پہنچے تو وہاں کے خوش مزاج اور ہنس مُک ملازم محمد اسماعیل نے ہمارا استقبال کیا اور سب سے پہلے ہمیں موئن جو دڑو میوزیم کی سیر کروائی، آثار قدیمہ سے روشناس کروایا اور تاریخ سے مختصر آگاہی فراہم کی، محمد اسماعیل کے مطابق اس شہر کو انیس سو بائیس میں دریافت کیا گیا، اس کی کشادہ گلیاں، نکاسی آب کا نظام دیکھ کر آنکھیں دنگ رہ گئیں،اب تک موئن جو دڑو کی لگ بھگ دس ایکڑ اراضی کی کھدائی کا کام کیا گیا ہے، اس دوران قیمتی، نایاب نوادرات، زیورات اور اشیاء بھی ملی ہیں، جنہیں بطور یادگار میوزیم میں رکھا گیا ہے، منکوں کے ہار، سونے، چاندی کی چوڑیاں شامل ہیں، اس کے ساتھ کئی اقسام کے پتھر جبکہ گندم، جو کے دانے، منفرد چکیاں اور کھجور کی گٹھلیاں بھی ملی ہیں، اس کے علاوہ چند تیر، کمانیں، مختلف اقسام کی مہریں بھی ملی ہیں، جن پر جنگلی حیات کی تصاویر کی شکل میں رسم الخط تحریر کیا گیا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر اور جان کر خود کو کچھ لمحوں کیلئے صدیوں پیچھے جاتا ہوا پایا، پھر محمد اسماعیل نے ہمیں موئن جو دڑو سائٹ کا دورہ کروایا اور وہاں بھی ہماری بھرپور رہنمائی کی، ہم نے اپنے سفر کو یادگار بنانے کیلئے موئن جو دڑو میوزیم اور سائٹ پر تصاویر بھی بنوائیں،اس کےبعد ہم نے وہاں سے رخصت چاہی اور دوبارہ لاڑکانہ کی جانب رواں دواں ہوئے، لاڑکانہ پہنچے تو ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز تالپور صاحب نے جنگلی حیات کی محفوظ پناہ گاہ لنگ جھیل کے تاریخی ریسٹ ہائوس میں ہمارے طعام کا اہتمام کر رکھا تھا۔
ڈائننگ ٹیبل پر مختلف انواع و اقسام کے کھانے اور سندھ کے باسیوں کی پسندیدہ میٹھے پانی کی مچھلی موجود تھی، ہم سب نے ساتھ ملکر کھانا کھایا اور پھر گپ شپ کارنر میں چائے کا دور بھی چلا، جس کےبعد اعجاز تالپور گھر روانہ ہوئے اور ہم نے ریسٹ ہائوس میں قیام کیا، کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، اگلے روز کا خوشگوار سفر اگلے مضمون کی زینت بنے گا۔۔
