میرا پیٹ میری مرضی۔۔(شعیب واجد)

میرا پیٹ میری مرضی۔
………………………
بڑا ظلم ہے کہ افطاری کو ہمارے معاشرے میں ابھی تک کھانے کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا ہے ..نہ جانے پکوڑوں, سموسوں کے بجائے لوگ روٹی چاول ہی کو کھانا کیوں سمجھتے ہیں۔
ایک افطار پارٹی میں جانے کا اتفاق ہوا..جہاں مینو چٹ پٹے پکوڑوں, چھولوں, سموسوں ,پھلوں اور شربت سے بھرپور تھا۔
افطاری سے پیٹ لبالب ہونے ہی والا تھا کہ میزبان نے اعلان کیا کہ نماز مغرب کے بعد کھانے کا بھی انتظام ہے..یہ سن کر ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ, یا حبیبی, یہ ابھی تک جو ہم نے کھایا , کیا یہ کھانا نہ تھا ؟جواب ملا نہیں یہ تو افطاری تھی۔
اب ایسے لوگوں کو کون سمجھائے کہ ہر وہ چیز جو کھائی جاتی ہے اسی کا نام کھانا ہوتا ہے۔
اس سے کچھ دن پہلے گھر میں حسب معمول تگڑی افطاری کرکے نکلا تو بیگم پوچھنے لگیں رات کے کھانے میں کیا بناؤں ؟ میں نے کہاکہ رات تو ہو ہی گئی اور کھانا بھی سمجھو کھا ہی لیا.تو کہنے لگیں کہ ارے یہ تو افطاری تھی.. رات کا کھانا تو ابھی کھانا ہے۔
دوستو..افطاری , کھانے کی وہ مظلوم قسم ہے جسے ہمارے معاشرے میں اب تک مکمل کھانے کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
سموسے , پکوڑے, چھولے, فروٹ اور شربت کو بھرپور غذائیت اور مرغن ہونے کے باوجود ابھی تک کسی ریسرچ کونسل کی جانب سے ” کھانے ” کا سرٹیفکیٹ حاصل نہیں ہو سکا ہے ..اسی طرح ہماری لغت اکیڈمی بھی کھانےکا مطلب بتانے سے گریزاں ہے۔شاید اسی لئے ان سے بھی ان مظلوم ڈشوں نے اپیل ہے کہ ڈکشنری میں افطاری کو کھانے معنوں میں بھی شامل کیا جائے۔
ہمارے ہاں لفظ کھانے کی تشریح کا ایک روایتی معیار بنا دیا گیاہے.اور اس معیار کی توہین کی کسی کوبھی اجازت نہیں ہے.. یعنی وہ معیار، جس کا مطلب روٹی سالن اور چاول ہوتا ہے۔
معاشرے کے کرتا دھرتاؤں کی نظر میں یہی وہ اجزا ہیں جن سے ملکر “کھانا” وجود میں اتا ہے .اس لئے پکوڑوں, سموسوں , دہی بڑوں اور پھلوں وغیرہ کو ابھی تک “انجمن کھانا” کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ملی ہے.حالانکہ ان کے حق میں اٹھنے والی کھٹی ڈکاریں بھی ان کے موقف کی سچائی کا ایک واضح ثبوت ہیں.ایسے میں افطاری کو کھانے کا درجہ دلانے کے حق کا دارو مدار صرف کسی ازخود نوٹس پر ہی رہ گیا ہے۔
کچھ دن پہلے ایک محفل میں کسی خاکسار نے تجویز پیش کی کہ ان حالات میں کہ جب افطاری کو کھانا مانا ہی نہیں جاتا تو ہر گھر کا سربراہ ایک آرڈیننس جاری کرے کہ افطاری صرف کھجور اور شربت سے کی جائے اور پھر نماز کے بعد ” کھانا ” کھا لیا جائے گا۔ تاہم اس پر کئی خواتین کو اعتراض یہ ہوا کہ گھر داری ہم لوگ سنبھالتے ہیں گھر کے سربراہ بھی ہم لوگ ہیں اور ایسا آرڈیننس گیا بھاڑ میں یعنی افطار میں بھرپور افطاری ہی بنے گی۔ بعد میں کھانے کا دور چلے گا۔
کچھ دن قبل ہمارا ایک ڈاکٹر کے پاس جانے کا اتفاق ہوا.. ہم نے انہیں اپنا ایک شعر سنایا۔
یہ جو افطار اورسحری کے بیچ میں ڈنر ہے
کھٹی ڈکار اور پیٹ میں آگ اسی کا اثر ہے

ڈاکٹر صاحب یہ شعر سن کر پھڑک گئے۔ بولے واہ صاحب آپ نے تو مرض بالکل ہی سہی پکڑ لیا… بس رمضان میں ڈنر مائنس کردیں اور پیٹ ہمیشہ ٹھیک رکھیں ۔ڈاکٹر سے واپسی پر ہم سوچ رہے تھے کہ بیگم کو بتائیں گے کہ ڈاکٹر نے ڈنر کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے ۔ اور بھرپورافطار کے بعد سحری ہی کو جائز قرار دیا ہے۔ تو شاید وہ رمضان میں سحری سے پہلے ڈنر بنانے سے باز آجائیں کیونکہ ہم سے زیادہ وہ ڈاکٹر کی سنتی ہیں..لیکن اس بار معاملہ الٹ ہی ہوگیا.. بیگم سن کر بولیں آپ نے ڈاکٹر کو بھی الٹی پٹی پڑھادی، چلیں ہاتھ دھو لیں کیونکہ کھانا تیار ہے۔
دوستو..کہنا بس اتنا تھا کہ ماہ رمضان کا اپنا فلسفہ ہے, یہ مہینہ ہماری جسمانی حالت اور اندرونی نظام سدھارنے کے فارمولےلیکر آتا ہے,لیکن ہم شدید بے اعتدالیوں سے اس مہینے کے ثمرات ضائع کرنے پر تلے رہتے ہیں.اس ضیاع کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ہم اب تک افطاری اور کھانے میں تفریق کرتے آرہے ہیں۔اور کھانے کی ڈبل ڈوز لیکر کھٹی ڈکاروں کے ساتھ پیٹ میں آگ لگا لیتے ہیں۔
اب شاید امریکن ریسرچ کونسل کا فتویٰ ہی لوگوں کو اس بات کا یقین دلا سکے گا کہ جو چیز پیٹ بھرنے کیلئے کھائی جائے وہی کھانا ہوتا ہے۔ چاہے وہ افطاری کی صورت میں کھالی جائے یا روٹی سالن اور پلاؤ کی شکل میں۔ پھر بھی کوئی اس بات کو نہ مانے تو اس کی مرضی کیونکہ بقول شخصے’’ میرا پیٹ میری مرضی ” …

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں