مرمٹنے کا جذبہ

تحریر: میمونہ یحییٰ۔

ربیع الاول کی آمد آمد تھی اور محلے کی میلاد کمیٹی چندا اکھٹا کرنے میں سرگرم تھی۔ ویسے تو ہر سال محلے میں شان دار طریقے سے محفل میلاد منائی جاتی تھی اور علاقے کے مشہور نعت خواں اس محفل میں عقیدت کے پھول نچھاور کرکے اس محفل کو چار چاند لگادیتے تھے مگر کمیٹی میں شامل نوجوان اس بار بہت پرجوش تھے بہت انوکھے انداز سے اور بہت وسیع پیمانے پر میلاد منانا چاہتے تھے کہ لوگ عش عش کر اٹھیں۔ تو ظاہر ہے کہ اس پروگرام کی سجاوٹ اور کھانے کے لیے کثیر رقم درکار تھی اور اس بار تو ملک کے نامی گرامی نعت خوانوں کو بلانے کابھی ارادہ تھا جو ایک نعت پڑھنے کے ساٹھ ستر ہزار سے کم نہ لیتے تھے۔ تو یہ سارے انتظامات محلے کی میلاد کمیٹی کے ذمے تھے۔

سہیل جب رات گئے کمیٹی کی میٹنگ سے واپس آیا تو سب سو چکے تھے صرف والدہ اس کے انتظار میں جاگ رہی تھیں ۔اتنی دیر لگادی میں کب سے تمھارا انتظار کر رہی ہوں، موبائل بھی بند ہے تمھارا۔

جی امی دراصل آپ کو تو پتا ہے کہ ربیع الاول قریب ہے اور اور میلاد کا انتظام کرنا ہے اور اس بار تو بہت بڑے پیمانے پر منانا ہے کہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ دشمن کچھ بھی کرلے ہم تو عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے نبی کی حرمت کی خاطر جان بھی دینے کو تیار ہیں۔ یہ دشمن کیا سمجھتے ہیں کہ یہ اپنی سازشوں اور دشمنی سے ہمارے دین کو مٹادیں گے ختم کردیں گے ایسا ہرگز بھی نہیں ہوگا ۔ہم میلاد منائیں گے ہر سال منائیں گے اور جوش و خروش سے منائیں گے سن لیں اندرونی اور بیرونی دشمن۔  سہیل کچھ حد سے زیادہ جذباتی ہورہا تھا اور جذبات میں دوسرے فرقوں کے خلاف بھی زہر اگلنے لگا۔

والدہ بہت غور سے اس کی باتیں سن رہی تھیں اور اس کے انداز دیکھ رہی تھیں۔ اس کے اندر دین سے محبت تو تھی جذبات بھی تھے مگر اس محبت کا رخ کچھ غلط سمت میں مڑتا محسوس ہوا انہیں۔ اور یہ سب اس صحبت کا اثر تھا جو اس محلے کے رہنے والوں کا اک مزاج بن چکا تھا کچھ لوگ تھے جو مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دیتے تھے اور ان مذہبی تقریبات میں یہ چیز کھل کر سامنے آتی تھی۔

اچھا جاؤ منہ ہاتھ دھو لو میں کھانا نکالتی ہوں اتنی دیر لگادی تم نے آ نے میں ۔ میں دو بار کھانا گرم کر چکی ہوں۔ سہیل منہ ہاتھ دھو کے آ یا تو امی نے اس کے آ گے کھانے کی ٹرے رکھ دی۔

اور دیکھیں امی ہماری میلاد کی میٹنگ جاری تھی کہ ایک سیاسی جماعت کے کچھ لوگ ہمارے پاس آ ئے اور ہمارے صدر کمیٹی سے اجازت لی کہ ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ میٹنگ تو ختم ہوہی چکی تھی تو صدر صاحب نے بات کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ کہہ کے سہیل کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ تو امی نے بھی بیچ میں ٹوکنا مناسب نہ سمجھا اور اس کے کھانا ختم کرنے کا انتظار کرنے لگیں ۔

ہاں اب کہو کیا کہہ رہے تھے کہ کون لوگ میٹنگ میں آئے اور کس بات کی اجازت چاہی ۔ سہیل کھانے سے فارغ ہوکے ہاتھ دھو کر آیا تو امی نے سوال کر ڈالا۔

امی وہ ایک دینی سیاسی جماعت کے لوگ تھے اور ووٹ کی بات کر رہے تھے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ شہر کے حالات انتہائی دگرگوں ہیں اور حکمران اپنی عیاشیوں میں مگن عوام کے مسائل سے بے نیاز ہیں اب ایسے لوگوں کو منتخب کرنا چاہیے جو امانت اور دیانت کے معیار پہ پورے اترتے ہوں۔ اب بھلا بتائیں امی ایسی کون سی جماعت ہے۔ یہاں تو سب کھانے والے ہیں ہم تو سب سے بیزار ہیں اس ملک کا کچھ نہیں ہونے والا نہ جانے ہم نے آزادی کیوں حاصل کی تھی اور ہاں امی انہوں نے ایک بڑی عجیب بات کی کہ نیک حکمرانوں کا انتخاب سنت نبوی ہے۔ اب بھلا بتائیں سیاست کا دین سے کیا تعلق۔  سیاست تو دنیادار اور گندے لوگوں کا کام ہے۔ ہم تو عشق نبی میں سرشار ہیں جھوم جھوم کے نعتیں پڑھیں گے اور ان کو جلائیں گے جو نبی کا میلاد نہیں مناتے۔ اور جہاں تک ووٹ کی بات ہے ہم تو اپنی ہی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ امی بغور اس کی بات سنتی رہیں اور اس کے خاموش ہونے کا انتظار کرتی رہیں ۔ ہوگئی تمہاری بات مکمل۔ جی امی۔

دیکھو بیٹا میں چھ ماہ سے قرآن کی کلاس میں جارہی ہوں اور قرآن کی ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد بتادیا تاکہ انسان کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔ خلیفہ سمجھتے ہو کسے کہتے ہیں ۔ جی امی ، مالک کی جگہ پر مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنے والے کو کہتے ہیں۔

بلکل درست، تو بیٹا یہ دنیا اللہ تعالیٰ کا باغ ہے اور ہم اس باغ کی آبیاری کے لیے اللہ نے انسان کو دنیا میں بھیجا ہے ہم اس کے باغ کے مالی ہیں یعنی کہ ہم اس کے باغ (دنیا )کو اس کے مالک کے حکم کے مطابق صحیح طریقے سے چلانے والے ہیں اس کا خیال رکھنے والے اسے سجانے بنانے والے اسے کیڑے مکوڑوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے نجات دلانے والے ہیں۔ آسان الفاظ میں ہم ایسے لوگوں اور ان کے طریقوں کو ختم کرکے صحیح بنیادوں پر چلانے والے ہوں جنھوں نے مخلوق خدا کی زندگی اجیرن کردی ہے ظلم اور استحصال کا نظام قائم کرکے غریب سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ اور انسانوں کی بنیادی ضروریات کے حصول کو مشکل تر بناکے انہیں مشقت کی چکی میں پیس دیا ہے۔ تو بیٹا سب کچھ تمھاری نظروں کے سامنے ہے ہم خود اس ظلم کا شکار ہیں۔ ہر فرد پریشان ہے۔ تو بیٹا یہی سب سے بڑی سنت ہے کہ اس ظلم کے نظام سے بندوں کو چھڑایا جائے اور اللہ کے حکم کے مطابق اس دنیا کا انتظام چلایا جائے اور یہ کام بغیر اقتدار اور اختیار کے ناممکن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ظلم کے نظام سے لوگوں کو آزاد کرا کے ایک رب کی بندگی میں دیا۔ اور مدینے جیسی ریاست کی بنیاد ڈالی

آج ہم عشق نبی کے نام پہ وہ سارے کام کرتے ہیں جس کا کوئی حکم قرآن و سنت سے نہیں ملتا ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار ساتھی تو اسے ضرور ہی مناتے مگر نہ یہ نبوت کے دور میں ہوا اور نہ خلافت کے دور میں بلکہ بہت بعد میں ایجاد کرکے اسے دین کا حصہ بنادیا گیا۔ اور سب سے بڑی سنت دین کی اقامت کو پس پشت ڈال دیا، بھلا دیا۔

اصل عشق نبی تو یہی ہے کہ رکھ کر نبی کو سامنے اگر اپنی انفرادی کردار کی آرائش کرنی ہے تو دنیا کےاس اجتماعی نظام کی گند کو بھی صاف کرکے اللہ کا بتایا ہوا صاف ستھرا نظام زندگی و بندگی قائم کرنا ہے تاکہ اللہ کی مخلوق سکون میں آ سکے ۔

سہیل مبہوت ہوکے امی کی گفتگو سن رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے پردے ہٹتے جارہے تھے۔ امی ۔۔ آپ نے تو میری آ نکھیں کھول دیں۔ کل وہ لوگ جب ووٹ کی اور حکومت کی تبدیلی کی بات کر رہے تھے تو ہم سب نے دبی زبان سے ان کا مذاق اڑایا۔ امی ۔ اب کل میٹنگ میں میں یہی بات سب کے سامنے رکھوں گا اور ان سب کو بھی اس حق کی جدوجہد میں شامل ہونے پر تیار کروں گا۔ ان شاءاللہ۔ امی آپ دعا کیجیے گا۔ امی کا دل شکر سے لبریز ہوگیا وہ بھیگی آنکھوں سے سہیل سمیت ہر نوجوان کے لیے دعاگو تھیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں