میر تقی میرؔ کی برسی( 1723 تا 21 ستمبر1810)

میر تقی، میرؔ تخلص ، آگر ہ میں 1723ء میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام محمد علی تھا، لیکن علی متقی کے نام سے مشہور ہوئے اور وہ زیادہ تر گریہ و استغراق اور کیف مجذوبی میں گم رہتے تھے ۔ میرؔ نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان ا للہ سے حاصل کی۔میرؔ کے سید ہونے کے سلسلہ میں کچھ لوگوں نے تامل کیا ہے، لیکن مولانامحمد حسین آزادؔ نے میرؔ ہی کے کلام سے استناد کرتے ہوئے انھیںسید تسلیم کیا ہے اور اس باب کو یہیں پر ختم کر دیا ہے۔ مولانا آزادؔ لکھتے ہیں ’’پھر بھی اتنا کہنا واجب سمجھتا ہوں کہ اُن کی مسکینی ، غربت،صبر و قناعت، تقوی ، طہارت ،محضر بن کے ادائے شہادت کرتے ہیں کہ سیادت میں شبہ نہ کرنا چاہیے ورنہ زمانے کا کیا ہے ،کس کس کو کیا نہیں کہا ہے، اگر وہ سید نہیں ہوتے تو خود کیوں کہتے‘‘: پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی میرؔ ابھی نو برس کے تھے کہ اُن کے اتالیق سید امان اللہ چل بسے ،اُن کے بعد اُن کے والد نے تعلیم و تربیت شروع کی، مگر چند ہی ماہ بعد اُن کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میرؔ کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتدا ہوئی۔والد کی وفات کے بعد میرؔ دلّی چلے گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اُجڑتے دیکھا۔ انھوں نے حالات اور واقعات کی تصویرکشی کرتے ہوئے ایسے شاہکار تخلیق کیے، جو نہ صرف اُردو زبان کی قدر و منزلت میں اضافے کا باعث بنے بل کہ خدائے سخن میر تقی میرؔکا نام بھی صدیوں کے لیے زندہ ٔ جاوید ہوگیا۔ میرؔ نے دلّی کے اُجڑنے کی المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے: دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے میر تقی میرؔ ایک ایسے عہد میں پیدا ہوئے، جو سیاسی ، سماجی ، ملکی اور معاشی اعتبار سے سخت انتشار اور افراتفری کا دَور تھا۔ مغل مرکز کمزور پڑ چکا تھا۔ ہندوستان کے بہت سے صوبے خود مختار ہو چکے تھے پورا ملک لوٹ ما ر کا شکار تھا۔ بیرونی حملہ آور آئے دن حملے کرتے تھے او ر عوام و خواص کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتے۔ لوگ بھوکے مرنے لگے اور دولت لٹنے سے اقتصادی بدحالی کا دَور شروع ہوا۔میرؔ اپنے اُس دَور کے احساس زوال اور انسانی الم کے مظہر ہیں۔اُن کی شاعری اس تما م شکست و ریخت کے خلاف ایک غیر منظم احتجاج ہے۔ میرؔ کے تصورِ غم کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں ’’ میرؔ کا سب سے بڑا مضمون شاعری اُن کا غم ہے۔ غم و اَلم میر ؔکے مضامین شاعری سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میرؔ کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کا غم بھی تھا۔ یہ سارے غم میرؔ کی شاعری میں جمع ہوگئے ہیں‘‘۔بقول میرؔ: مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میَں نے درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا ………………… چشم رہتی ہے اب پر آب بہت دل کو میرے ہے اضطراب بہت ………………… مستقل روتے رہیے تو بجھے آتش دل ایک دو اشک تو اور آگ لگا دیتے ہیں بابائے اُردو مولوی عبدالحق،میرؔ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ اُن کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے‘‘۔ ایک اور جگہ کچھ اس طرح رقمطراز ہیں: ’’ انھوں نے سوز کے ساتھ جو نغمہ چھیڑا ہے، اس کی مثال دنیائے اُردو میں نہیں ملتی‘‘۔میرؔ کا تصور ِغم تخیلی اور فکری ہے، یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا۔مجنوں گورکھپوری ،میرؔ کے تصوراتِ غم سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’میرؔ نے غمِ عشق اور اس کے ساتھ غمِ زندگی کو ہمارے لیے راحت بنا دیا ہے۔ وہ درد کو ایک سرور اور اَلم کو ایک نشاط بنا دیتے ہیں۔ میر ؔکے کلام کے مطالعہ سے ہمارے جذبات و خیالات اور ہمارے احساسات و نظریات میں وہ ضبط اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے، جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہتے ہیں‘‘: ہر صبح غموں میں شام کی ہے میَں نے خونابہ کشی مدام کی ہے میَں نے یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر مر مر کے غرض تمام کی ہے میَں نے میرؔ کا دَور شدید ابتری کا دَور تھا۔ زندگی کے مختلف دائروں کی اقدار کی بے آبروئی ہو رہی تھی۔ انسانی خون کی ارزانی ، دنیا کی بے ثباتی اور ہمہ گیرانسانی تباہی نے انسانوں کو بے حد متاثر کیا۔ میرؔ اس تباہی کے محض تماشائی نہ تھے بل کہ وہ خود اس تباہ حال معاشرہ کے ایک رکن تھے، جو صدیوں کے لگے بندھے نظام کی بردبادی سے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کر رہ گیا تھا اوراب اس کو جوڑ ممکن نہ رہا تھا۔ میرؔ نے اس ماحول کے اثرات شدت سے محسوس کیے ہیں۔ اُن کی غزلوں میں اس تباہی کے نقوش ملتے ہیں۔ لٹے ہوئے نگروں ، شہروں اور اجڑی ہوئی بستیوں کے حالات ، بجھے ہوئے دلوں کی تصویریں، زمانے کے گرد و غبار کی دھندلاہٹیں ،تشبیہوں اور استعاروں کی شکل میں میرؔ کے ہاں موجود ہیں: روشن ہے اس طرح دل ویراں میں داغ ایک اُجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک ………………… دل کی ویرانی کا کیا مذکور یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا اس غم و الم کے عالم کے باوجود میرؔ کی شاعری میں بلند حوصلگی بھی ہے۔ وہ سپاہیانہ دَم خم رکھتے ہیں، فوجی سازو سامان کے استعاروں میں مطلب ادا کرکے زندگی کا ایسا احساس دلاتے ہیں ،جس میں بزدلی بہرحال عیب ہے۔ وہ رویہ جسے اہل تذکرہ بے دماغی یا بد دماغی کہتے ہیں ،وہ دراصل وہ احتجاجی روش ہے ،جو ہر سپاہی کا شیوہ ہے۔بقول ڈاکٹر سید عبداللہ ’’میرؔ کو زندگی سے بیزار شاعر نہیں کہا جاسکتا۔ اُن کا غم بعد میں آنے والے شاعر ، فانی کے غم سے مختلف ہے ،جس کی تان ہمیشہ موت پرٹوٹتی ہے۔ اُن کا غم سوداؔ سے بھی مختلف ہے‘‘۔میرؔ کہتے ہیں: خوش رہا جب تلک رہا جیتا میرؔ معلوم ہے قلندر تھا ………………… بہت آرزو تھی گلی کی تری سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے ………………… حوصلہ شرطِ عشق ہے ورنہ بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا میرؔ نے فنی خلوص کو پوری صداقت سے استعمال کیا ہے۔ فنی خلوص سے یہ مراد ہے کہ شاعر زندگی کے واقعات کو جس طرح دیکھتا ہے ، اسی طرح بیان کرے۔ میرؔ کا انداز اسی لیے مقبول ہے کہ اس میں صداقت اور خلوص او ر تمام باتیں بے تکلفی کے انداز میں کہی گئی ہیں۔ میرؔ نے خیال بند شاعر وں کی سی معنی آفرینی سے کام نہیں لیا۔ محض تخیل کے گھوڑ ے نہیں دوڑائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرؔ عوام کا شاعر ہے۔ اس کے آس پاس کی زندگی سے درد و غم کے مضامین کے چشمے اُبل رہے تھے۔ میرؔ نے انھی مضامین کو سادہ الفاظ میں بے تکلف انداز میں پیش کیا۔ میرؔکے خلوص وصداقت کا اندازہ اُن کے اشعار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے: قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل سارے عالم کو میَں دکھا لایا دل مجھے اس گلی میں لے جا کر اور بھی خاک میں ملا لایا ابتدا ہی میں مر گئے سب یار عشق کی کون انتہا لایا میرؔ نے اپنے شیوۂ گفتار کو زیادہ موثر اور دلکش بنانے کے لیے تشبیہ و استعارے کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے۔یہ تشبیہات مردہ نہیں بل کہ اُن کے اندر زندگی دوڑتی ہوئی نظرآتی ہے۔ اس لیے کہ اُن کے خالق کے خون میں گرمی اور حرارت ہے اور وہ پوری صداقت اور پورے فنی خلوص سے اپنی زندگی بھر کے تجربات و تاثرات کو اُن تشبیہات و استعارات کی صورت میں پیش کررہا ہے۔ اُن میں کہیں بھی تصنع یا بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے: شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ، مفلس کا ………………… نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ………………… کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے میرؔ کی شاعری کے فکری عناصر میں متصوفانہ رنگ خاص طور پرقابل ذکر ہے۔جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا کہ میرؔ کے والد صوفیانہ مزاج کے مالک تھے اور رات دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے۔ پھرمیر ؔبھلا کس طرح صوفیانہ تجربہ سے الگ رہ سکتے تھے۔ اُن کے ہاں تصوف کا تجربہ محض روایتی نہیں، یہ رسمی بھی نہیں، اس تجربے نے میر ؔکے ذھن و فکر کی تہذیب پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ وہ زندگی کو کسی عام انسان کی طرح نہیں دیکھتے ، اُن کی نظر صاف دل صوفی کی نظر ہے: موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر ………………… سرسری تم جہان سے گزرے ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا میرؔ کو اس جہان ِ فانی سے گزرے دوسو برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا تاہم اُن کی عظمت کااعتراف ہردَورمیںکیاجاتارہے گا۔بقول میرؔ: جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز تا عمر جہاں میں مرا دیوان رہے گا میرؔ کی غزلوں کے 6 ضخیم دیوان ہزاروں اشعار پر مشتمل ہیں۔ مثنوی ، مسدس، مخمس ، رباعیات اور قطعات کے نمونے بھی وافر مقدارمیں ملتے ہیں۔اُردو کے اس خدائے سخن نے 21 ستمبر 1810ء میں لکھنو میں اس جہان سے کوچ کیا ۔ میرؔ ایک ایسے شاعر تھے ،جن کے فن کی ہر عہد پر غالب شاعرمرز اسداللہ خاں غالب ؔ سمیت کئی اساتذہ نے داد دی –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرؔ کو ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے متفقہ ” خداۓ سخن” کا خطاب دیا ہے ۔ اردو کے بڑے بڑے شاعروں نے میرؔ کی استادی اور شاعرانہ کمالات کا اعتراف کیا ہے۔
مرزا سوداؔ نے میرؔ کی استادی کو تسلیم کیا ہے ۔ کہتے ہیں

سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل میں لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

مصحفیؔ کہتے ہیں:
اے مصحفیؔ تو اور کہاں شعر کا دعویٰ
پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میرؔ کے اوپر
۔۔۔۔۔۔
مرزا غالبؔ فرماتے ہیں:
ریختی کے تمھیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانہ میں کوئی میرؔ بھی تھا
غالبؔ نے یہ بھی کہا:
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب مصطفٰی شیفتہؔ نے کہا ہے :
نرالی سب سے ہے اپنی روش اے سیفتہؔ لیکن
کبھی دل میں ہواۓ شیوہ ہاۓ میرؔ پھرتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ آتشؔ نے اظہار عقیدت کیا ہے:
آتشؔ بقول حضرتِ سودا شفیقِ من
ہونا ہے تجکو میرؔ سے استاد کی طرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد ناسخؔ کا یہ شعر مشہور ہے جس کا حوالہ غالبؔ نے دیا ہے:
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغؔ دہلوی نے کہا تھا:
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیۓ دیواں ان کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا حالیؔ نے بھی میرؔ کی پیروی کا دعویٰ فخر سے کیا ہے:
حالیؔ سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میرؔ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر الٰہ آبادی فرماتے ہیں:
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ
انتخاب : کامران مغل ، کراچی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں