مردوں کے حقوق دو (مرزا وصی الدین)

میں مرد ہوں مجھے عورت کی برابری کے حقوق چاہیئں۔۔۔!
میں جب بس میں سوار ہوں تو لڑکیاں مجھے دیکھ کر سیٹ چھوڑ دیں……میں جب بینک، ڈاکخانے یا کسی بھی دفتر جاؤں تو لڑکیاں مجھے احترام کیساتھ لائن کراس کر کے آگے جانے دیں اور خود 19ویں نمبر سے شروع ہوں۔۔! جب کبھی پبلک میں میری کسی لڑکی سے لڑائی ہو جائے تو میرا حق ہے کہ میں لڑکی کو وٹ وٹ چپیڑیں ماروں اور لڑکی آگے سے ہاتھ نہ اٹھائے۔۔جیسے مرد سے توقع کی جاتی ۔۔۔! میرا حق ہے کہ میں جیسے چاہوں کپڑے پہنوں۔۔لہٰذا اب سے میں اسکن ٹائٹ انڈر ویئر میں گھوما کروں گا صرف۔۔۔! اور سنو اگر میرے باڈی کٹس یا کسی بھی عضو کی ظاہر ہوتی شبیہ کسی لڑکی کو بری لگی تو یہ میرا قصور نہیں اس کے ذہن کی غلاظت ہوگی۔۔۔!
بائیک پنکچر ہونے پر لڑکا روڈ سائیڈ اسٹاپ پر کھڑا ہو کے موبائل پر گیم کھیلے گا اور لڑکی موٹرسائیکل کی ٹنکی پر بیٹھ کے چلاتے ہوئے پنکچر لگوانے جائے گی۔۔! اور بالکل ایسے ہی پیٹرول ختم ہونے پر لڑکا اسٹیرنگ سنبھالے گا اور لڑکی کار کو دھکا لگائے گی۔۔۔!
دیکھیے میں برابری کا قائل ہوں مجھے برابری کے حقوق دینے بھی ہیں کیونکہ خواتین کو میں اپنے سے کم نہیں سمجھتا۔۔۔!
لہٰذا دسمبر کی سردی میں جب کسی لوکل بس میں سوار ہوتے ہوئے جگہ کم پر پڑے تو میں بھاگ کر سیٹ پر بیٹھ جاؤں گا اور نبیلہ، شکیلہ صائمہ کھڑی ہوں گی۔۔۔!!! صبا، مہوش، صدف، عائشہ وغیرہ بس کے باہر لگے پائپ کو پکڑ کر لٹکی رہیں گی، ربینہ،ارم،بشریٰ،سدرہ وغیرہ بس کی چھت پر چڑھ کر بیٹھیں گیں، جہاں آگے سے آنے والی زور دار ہوا میک اپ اکھاڑ پھینکے اور منہ میں گھس کر باگڑ بلا بنا دے۔۔!!! ہمارے محلے کا گٹر بند ہے اور میں کسی فیمنسٹ عورت کو بلاؤں گا جو گٹر میں گلے تک اتر کر گٹر صاف کرے اور بالٹیاں بھر بھر کے دور پھینک آئے۔۔۔اور آج میرے ہمسائے کی پانی کی باری ہے، بیٹے جبار کو بخار ہے وہ نہیں جائے گا تین بجے رات کو پانی لگالینا، لہٰذا بیٹی کو سمجھا دیا ہے کہ بیلچہ کدال وغیرہ سنبھال لے اور صبح آدھا گھنٹا پہلے ہی اٹھ جائے کہیں پانی کو دیر نہ ہو جائے۔۔!!! دیکھو اب لڑکی کے لیے یہ آپشن ہرگز نہیں کہ جاب مل گئی تو مل گئی ورنہ گھر بیٹھنا…!! نہ نا نا۔۔یہ تو کمزوری ظاہر ہو جائے گی۔۔اب نوکری نہ ملنے پر چاچے غفورے کے اینٹوں کے بھٹے پر جانا ہے سمیرا نے۔۔اور سوبیہ کی ٹھیکیدار سے بات ہو گئی جو سڑک بنا رہا وہاں تارکول ڈالنے کے لیے مزدور چاہیے۔” اور نکالو “عورت آزادی مارچ” کرو حقوق کی بات. …!لگ پتہ جائے گا جب ہم نے اپنے حقوق کی بات کی تو.. …!!! اسلام دشمن این جی اوز کی مثال ایسی ہے جس طرح ایک مرتبہ بھیڑیوں کا غول بکریوں کے حقوق کی آواز بلند کرتا نکلا اور بکریوں نے جو کہ گھروں میں زنجیروں سے بندھی تھیں انہوں نے زنجیروں کو توڑا کہ یہ تو ہمارے حقوق اور ہماری آزادی کے لیے نکلے ہیں تو ہم کیوں گھروں میں رہیں ایک ادھیڑ عمر بکری نے کہا سنا بیٹا. … !! ٹائر مت جانا یہ بھیڑیوں کی چال ہے یہ تمہارے حقوق کا جھانسہ دیکر تمھیں نوچ کھانا چاہتے ہیں لیکن نوجوان بکریاں بضد تھیں کہ ہم نے بھیڑیوں کے احتجاج میں ہر صورت شامل ہونا ہے اور یہ کہتے ہی ساری نوجوان بکریاں بھیڑیوں کے غول میں شامل ہوگئیں اور بھیڑیے بھی بکریوں کو آزادی دو بکریوں کو باندھ کر مت رکھو کے نعرے لگاتے جنگل کی طرف چل دیئے جیسے ہی جنگل میں یہ غول داخل ہوا ہر ایک بھیڑیے نے ایک ایک بکری کو پکڑا اور نوچ نوچ کر ان کا گوشت بڑے مزے لے لے کر کھایا- میری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں یہ جو عورت آزادی مارچ” کے نعرے گلا بھاڑ پھاڑ کر لگا رہی ہیں یہ وہ بدنصیب خواتین ہیں جو خود تو برباد ہوچکی ہیں یہ تمھیں بھی کہیں کا نہیں رہنے دیں گی- اگر تم نے ان بکریوں کی طرح خود کو ان کے حوالے کرکے زلت کی زندگی گزارنے کا تہیہ کرلیا ہے تو جاؤ اور زلت بھری زندگی کے مزے لوٹوں لیکن تمھیں جو عزت وقار مرتبہ اللہ پاک کے دین اسلام نے دیا ہے وہ سب تم سے چھن جائے گا اور جو اللہ پاک کی حکم عدولی کرتا ہے دونوں جہانوں میں رسوا ہوتا ہے یہ سب ذہن میں رکھنا–

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں