“ابھی تو گرمیوں کی چھٹیوں میں تم گئی تھی اپنے میکے. یہ روز روز کا تماشہ بند کرو ماں کے گھر جانے کا” شکیلہ بیگم غصے سے بولیں.
“اماں! گرمیوں کا موسم گزرے تو چھ مہینے ہو گئے. اب تو سردیاں بھی ختم ہونے کو ہیں اور بچوں کی چھٹیاں بھی ہیں” عابدہ ڈرتے ڈرتے بولی.
“تیری زبان بہت تیز چلنے لگی ہے قینچی کی طرح. آج آنے دے شہاب کو تیرے سب پر کٹواتی ہوں. ایک ہی شہر میں میکہ ہو تو بیٹیاں آئے دن منہ اٹھا کر وہاں جانا اپنا حق سمجھتی ہیں. اے بی بی! یہ چونچلے تمہارے خاندان میں ہوتے ہوں گے، ہم عزت دار گھرانوں کی بہویں طریقے سے اپنے میکے آتی جاتی ہیں. ماں باپ سے روز فون پر گھنٹوں بات کر کے جی نہیں بھرتا تمہارا جو اب روز روز بوریا بستر اٹھا کر وہاں جانے کا جی کرتا ہے. بچوں کو بھی یہی عادت ڈالو گی تم . ددھیال میں پلنے والے بچے تمیز تہذیب سیکھتے ہیں، بھلا ننھیال کو کیا پڑی ہے بچوں کی فکرکرنے کی. جو تکلیف ہمیں ہے وہ نانی یا ماموں کو کیوں ہو گی. یہ جو روز بچوں کا بہانہ بنا کر ماں سے ہمارے شکوے کرنے کا دل کرتا ہے، میں سب جانتی ہوں. ہمارا خون ہے یہ ان کا ننھیال سے کیا تعلق. تم جانو تمہارے میکے والے جانیں انہیں اب وہاں لے کر جانے کا سوچنا بھی مت. یہ یہاں ہی رہیں گے اپنی دادی اور باپ کے پاس. ” شکیلہ بیگم معمول کے مطابق بہو کو طعنے کسنے کی عادت سے مجبور تھیں مگر آج میکے جانے کے نام پر تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی.
“ سہی کہتی تھی صبیحہ کہ اماں دوسرے شہر کی لڑکی لاؤ. اسی شہر کی ہو گی تو روز روز میکے جانے کی ضد کرے گی. مگر ہمیں ہی چاؤ تھا کہ اسی شہر کی لڑکی ہو تاکہ پوچھ گچھ کرنے میں آسانی رہے. ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمارے ہی نصیبوں میں اللہ نے ایسی بہو لکھنی تھی.
“نانی، نانی! ہم آ گئے.” شکیلہ بیگم پرویز اور گلریز کو دیکھتے ہی تازہ گلاب کی مانند کھل گئی. پرویز اور گلریز ان کے نواسہ تھے جو بالکل ساتھ والے گھر میں رہتے تھے.
“آ جا! میرا بچہ. نانی اداس ہو گئی تھی. آج اتنی دیر لگا دی آنے میں. اور ماں کہاں ہے تمہاری؟ ” شکیلہ بیگم پرویز کو پیار کرتے ہوئے صبیحہ کو ڈھونڈنے لگیں.
“ وہ ابا کی طبیعت ذرا خراب ہے. آج دادی جان نے آنا ہے اسلئے اماں کھانا بنا رہی ہے”. پرویز لاپرواہی سے بولتا ہوا اندر بھاگ گیا.
“یہ جمشید بھی روز بیماری کا بہانہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے. اسے بھی بہانہ چاہیئے اپنے ماں باپ کو بلانے کا. میری معصوم بچی کا جینا حرام کیا ہوا ہے. بڑی مشکل سے اس گھر سے اس کی جان چھوٹی مگر پھر بھی آئے دن سارا خاندان آ جاتا ہے منہ اٹھا کر. چھوٹے چھوٹے بچے ہیں صبیحہ کے مگر کسی کو پرواہ نہیں. اے پرویز! جا جا کر ماں کو بلا. “شکیلہ بیگم کا خون کھولنے لگا اور غصے کے مارے ان کی رگیں پھولنے لگیں.
ارے بہن! کیا ہو گیا؟ آج کیوں صبح صبح اپنا خون جلا رہی ہو؟ دروازے سے اندر داخل ہوتی ہمسائی شکیلہ بیگم سے مخاطب ہوئی.
“آؤ بہن آؤ! تم سے کونسا کچھ چھپا ہوا ہے تمہاری اور ہماری تو ایک دیوار ہے. جو یہاں ہوتا ہے وہاں معلوم ہو جاتا ہے. بس کیا بتاؤں جب سے یہ منحوس اس گھر میں بیاہ کر آئی ہے اس گھر کا سب سکون تباہ کر کے رکھا ہوا ہے. ” شکیلہ بیگم پھر عادت سے مجبور اپنی بہو کو کوسنے لگی جو ہمسائی کو سلام کر کے کب کی کچن میں جا چکی تھی.
“ ارے ایسے کیوں کہتی ہو. اتنی اچھی بہو ملی ہے تمہیں……”
“اچھی؟ لو جی! بس اب ہم ہی اس دنیا میں برے ہیں باقی تو سب ہی اچھے ہیں. اس کے ساتھ ایک دن رہ کے دیکھو تو معلوم ہو کہ کیا چیز ہے یہ. ایسی کنی ہے کہ کیا بتاؤں. آتے ہی میرے امجد کو اپنے قابو میں کر لیا. بیٹا میرا نہ رہا. مجھ پر اور میری بیٹیوں پر جو ظلم یہ کرتی ہے کسی کو کیا معلوم. میں صاف گوہ اور دل کی سچی ہو جو دل میں ہو بول دیتی ہوں. اس لئے تمہیں بھی میں ہی غلط لگی” شکیلہ بیگم اپنی ہمسائی کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئی غصے سے منہ بسورتے ہوئے بولیں.
” ارے نہ شکیلہ بہن نہ، ہم جانتے ہیں تم سے اچھا تو اس محلے میں کوئی نہیں. میں نے تو بس ایک بات کی” ہمسائی اپنی جان بچاتے ہوئے بولی اور یہ جملہ سن کر شکیلہ بیگم کو بھی زرا اطمینان ہوا. اتنی دیر میں عابدہ چائے اور بسکٹ کی سلیقے سے سجی ٹرے لے آئی. ٹرے ان کے سامنے رکھتے ہی عابدہ واپس کچن میں چلی گئی.
“ دیکھ لو، یہ ہے اس کا طریقہ سلیقہ. اس کو معلوم نہیں چائے کیسے لانی ہے؟ ایسوں کو سسرال اچھے مل جاتے ہیں جو کچھ کہتے نہیں اور ایک میری معصوم صبیحہ ہے جس کے سسرال والوں نے اسے تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی. شادی کے نو سالوں میں ایک دن بیچاری کو چین نہیں لینے دیا. ” شکیلہ بیگم روہانسی شکل بنا کر بولیں.
“ ارے بہن! تمہاری صبیحہ سسرال میں رہی کب ہے جو سسرال والے کچھ کہتے.” ہمسائی نے ٹوک لگائی.
“ارے بہن ایک مہینہ رہی تھی مگر ایسی چالاک ساس اور نند تھی کہ میری بچی کا جینا محال کر رکھا تھا. اوپر سے میرا داماد بھی ماں اور بہنوں کی ہی سنتا تھا. ایک مہینے میں میری بچی کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا اور رو رو کر بچی ہلکان ہو گئی تھی. وہ تو پھر میں نے ان سب کو آڑے ہاتھوں لیا. میں نے تو کہہ دیا کہ یا تو جمشید میری بچی کو طلاق دے یا پھر الگ گھر لے دے. تب انکی عقل ٹھکانے آئی اور جمشید نے میری بات مانی. یہ تو اتفاق سے ساتھ والا گھر خالی ہو رہا تھا تو جمشید اسے یہی لے آیا.” شکیلہ بیگم اپنی بچی کی معصومیت اور اپنی دلیری کا قصہ بہت فخر سے سنا رہی تھی.
” تو اب ایسا کیا ہو گیا جو تم اپنا خون کھولا رہی ہو.” ہمسائی، جو ایک ہی دیوار ہونے کی وجہ سے تمام قصہ سن تو چکی تھی مگر دوبارہ مزہ لینا چاہتی تھی، نے دریافت کیا.
“ اری بہن! ایک یہ میری بہو جس نے آئے روز اپنے میکے جانے کی رٹ لگائی ہوتی ہے اور ایک میری صبیحہ کے سسرال والے جو آئے دن اس کے گھر آ کے ڈیرہ جما لیتے ہیں. بس اس کے علاوہ کیا ہو گی میری مشکل” شکیلہ بیگم نے قصہ مختصر پڑوسن کے گوش گزار کیا.
ی کوئی بچی تو نہ تھی جو اس گھر کے حالات سے واقف نہ تھی. وہ بھی جانتی تھی کہ کیسے شادی کے اگلے ہی دن صبیحہ نے اپنے خاوند سے الگ گھر میں رہنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور یہ جو ساتھ والا کرائے کا مکان خالی پڑا تھا وہ شکیلہ بیگم نے مالک مکان سے پہلے ہی بات کر رکھی تھی کہ یہ صبیحہ کے لئے لینا ہے تو آپ کسی کو کرائے پر مت دینا. شکیلہ بیگم کی لمبی زبان اور ناشکرے پن سے تمام محلہ واقف تھا اور جیسی ماں ویسی بیٹی والا مقولہ ان پر بالکل صحیح بیٹھتا تھا. ایک ہی شہر میں سسرال ہوتے ہوئے صبیحہ سالہا سال وہاں نہ جاتی تھی اور نہ اپنے بچوں کو دادا دادی سے ملنے بھیجتی تھی. سارا دن ماں کے گھر پڑی رہتی تھی اور عابدہ کو ہی ان کے تمام کام کرنے پڑتے تھے یہاں تک کہ صبیحہ کے بچوں کا خیال بھی عابدہ ہی رکھتی تھی. سارا دن ساس کی جلی کٹی سننے کے باوجود چپ رہتی اور اس کا خاوند امجد بھی ماں بہن کی باتوں میں آ کر عابدہ پر بہت ظلم کرتا تھا.
“کیا بات ہے اماں! کیوں بلایا مجھے؟”صبیحہ گھر میں آتے ہی بولی مگر سامنے ہمسائی کو دیکھ کر چپ کر گئی. ہمسائی بھی موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہولے اٹھ گھڑی ہوئی اور سلام کر کے چلتی بنی.
“ ہاں! اب بول اماں” صبیحہ اپنے روایتی انداز میں بولی.
“ارے کیا ہوا جمشید کو. پھر اس نے بہانہ کر لیا اپنے خاندان کو بلانے کی خاطر. بہت اداسی ہو جاتی ہے اسے بھی اپنے گھر والوں سے. اور تجھے کس نے کہا کہ ان کے لئے کھانا پکا، بس چائے پر چلتا کرنا.” ہمسائی کو باہر جاتا دیکھ کر شکیلہ بیگم بولی.
“ نہیں اماں! تجھے کس نے کہا کہ میں ان کے لئے کھانا بنا رہی تھی. تمہاری بہو کے ہاتھ کا جلا بھنا کھانا کھا کھا کر منہ کا زائقہ خراب ہو رہا تھا اس لئے آج اپنے ہاتھ سے کھانا بنا رہی تھی. ” صبیحہ جو روز ماں کے گھر ہی تین وقت کا کھانا کھاتی تھی اور اپنے خاوند اور بچوں کو بھی کھلاتی تھی، اپنی عادت سے مجبور بھابھی پر ٹوک لگانا نہ بھولی.
“ ارے واہ! تو کیا بنا رہی ہے آج میری چندا.” شکیلہ بیگم کی ممتا جاگ اٹھی.
“آج بھنا ہوا گوشت کھانے کا دل کر رہا تھا تو وہ بنا رہی تھی. تمہارے گھر تو دال، سبزی کھا کھا کر گوشت کا زائقہ ہی بھولتی جا رہی ہوں” صبیحہ بڑے جلے ہوئے انداز میں بولی.
“چل ہٹ! اچھا پکا کر ماں کو بھی بھیج دینا” شکیلہ بیگم بولی.
“ ارے ماں! آدھا کلو تو گوشت آیا ہے اب کس کس کو بانٹوں گی. تم اپنی دال. پر ہی گزارہ کرو. اور ہاں شام کو میری ساس. سسر، آئیں گے، اپنی بہو کو کہہ دینا کہ ان کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہ آئے. سموسے، دہی بھلے، چائے، بسکٹ سب منگوا لینا. میں چلتی ہوں، ہنڈیا چولہے پر رکھی ہے. ” صبیحہ نے نیازی سے کہتی ہوئی اپنے گھر کی جانب چل پڑی. شکیلہ بیگم کو بیٹی کی بے مروتی بہت ناگوار گزری مگر کیا کرتی آخر بیٹی تھی.
عابدہ جو کچن میں کھڑی پہلے ہمسائی اور پھر صبیحہ کی شکیلہ بیگم سے ہونے والی گفتگو سن رہی تھی سوچنے لگی کہ کیوں ایک عورت بیٹی اور بہو سے مساوی رویہ اختیار نہیں کر سکتی؟ کیوں اپنی بیٹی پارسا اور معصوم جبکہ بہو چالاک ہی ہوتی ہے؟ کیوں اپنا بیٹا زن مرید اور داماد ظالم ہوتا ہے؟ آخر کیوں بیٹی کے سسرال والے برے اور بہو سے ظلم کرنے والے ساس سسر بھی بہترین انسان ہوتے ہیں؟ کیوں بہو کے میکے جانے پر واویلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور بیٹی سسرال والوں سے ملنے بھی نہ پائے؟ کیوں بہو کے بچوں کا اس کے ننھیال سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا اور بیٹی کے بچے ننھیال کی آنکھ کے تارے ہوتے ہیں؟ کیوں بہو کے بچے ننھیال جا کر تہذیب اور تمیز سے عاری ہو جاتے ہیں مگر بیٹی کی اولاد ننھیال میں پلتی بری نہیں لگتی؟ کیا بہو کے ماں باپ اپنی بیٹی سے اداس نہیں ہوتے؟ کیا بہو کے والدین اپنے نواسی نواسی سے ملنے کو نہیں ترستے؟ کیا بہو کسی کی بیٹی، بہن نہیں ہے؟ کیا رشتے بس خون کے ہوتے ہیں جذبات کے کوئی اہمیت نہیں ہے؟
“ارے کلموہی! کہاں مر گئی؟ اب کیا کچن میں ہی کھڑی ماتم مناتی رہے گی . شام کو صبیحہ کے سسرال والے آئیں گے ان کے چائے پانی کا انتظام کر لینا. اب یہ ٹسویں کس بات کے بہا رہی ہے تو؟ ” شکیلہ بیگم کی چھناکے دار آواز نے عابدہ کو اس کی خیالوں کی دنیا سے ازیت ناک حقیقت سے روبرو کروایا.
“ نہیں اماں! میں رو نہیں رہی، سالن بنانے کے لئے پیاز کاٹ رہی تھی”. عابدہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی اور سوچنے لگی کہ پیاز بھی اللہ کی بنائی ہوئی کتنی بڑی نعمت ہے.