میں‌ نے لیاری ڈوبتے دیکھا (مرزا شجاع بیگ)

لیاری کراچی کا ایک قدیم اور تاریخی علاقہ ہے ، اس کا نام سنتے ہی دیو مالائی سرزمین کا سا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے. میرا جنم بھی اسی علاقے میں‌ہوا. میرا بچپن اور میری جوانی کا بہت بڑا حصہ اسی علاقے میں گزرا ۔لیاری کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے اس لئے کے یہاں تمام قومیت کے لوگ آباد ہیں, میں نے ان تمام قومیت کے لوگوں کو ایک خاندان کی طرح لیاری میں مل جل کر رہتے دیکھا ہے,
میں نے اپنے بچپن سے ہی یہاں پر اس وقت کے گینگسٹر کے قصّے سنے ہیں- نبی بخش عرف کالا ناگ, فضلو آقا۔شیرو, دادل, یہ سب لیاری گینگ کے وہ کردار ہیں جو 80 کی دہائی تک جو ہمارے بچپن کے دن تھے ان دنوں ہم نے ان تمام کرداروں کے بہت سے قصّے اس وقت کے لیاری کے بزرگوں سے سنے تھے جن کے مطابق دنیا کی نظر میں تو یہ تمام کردار گینگسٹر تھے لیکن لیاری کے لوگ ان کو ہی اپنا مسیحا سمجھتے تھے- کسی کے بارے میں کہا جاتا تھا کے اس نے سینکڑوں غریب بچیوں کی شادیاں کروائی ہیں تو کوئی سینکڑوں غریب بچوں کی تعلیم کے تمام اخراجات ادا کرتا ہے تو کسی کے بارے میں مشہور تھا کے وہ ہر مشکل وقت میں حکومتی اداروں سے پہلے لوگوں کی مدد کو پہنچتا ہے-
مجھے نہیں معلوم کے ان قصوں میں کتنی صداقت ہے یا یہ سب باتیں کس حد تک درست ہیں لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ اس وقت ان تمام کرداروں کی وجہ سے لیاری کے کھیلوں کے میدان ویران نہیں ہوا کرتے تھے- میں یہ جانتا ہوں کہ ان کرداروں کی وجہ سے لیاری کے تعلیمی ادارے کبھی بند نہیں ہوئے, اس دور میں ہم لیاری کی گلی کوچوں میں بلا خوف وخطر آیا جایا اور کھیلا کودا کرتے تھے- اسی دور میں لیاری میں بلاتفریق رنگ و نسل قومیت زبان میرا شاندار و یادگار بچپن بھی گزرا ہے- پنجابی, پٹھان سندھی, بلوچ, مہاجر ہم سب بچپن کے دوست آج بھی کبھی ملتے ہیں تو وہ سنہرا دور یاد آتا ہے-
70 سے 80 کی دہائی تک کا وہ عرصہ جب پاکستان میں شاہراہ قراقرم کا آغاز ہو رہا تھا, جب پاکستان اسٹیل مل کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا, جب عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹری کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی, جب پورٹ قاسم جیسے عظیم ترین پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا- اس وقت لیاری میں تباہی و بربادی کا آغاز ہونے جا رہا تھا اس وقت اگر ترقی کے اس سفر میں لیاری یعنی منی پاکستان کو بھی اس کا جائز حق دیدیا جاتا تو آج لیاری کی یہ حالت نہ ہوتی-ہم نے جو لیاری کے مکینوں کو جو لیاری دیا آج اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں- ہم نے جو بویا اس کا پورا حصّہ ہمیں سود سمیت مل رہا ہے-میں اپنے اس مضمون سے خدا ناخواستہ کسی جرائم پیشہ عناصر کی صفائی پیش نہیں کر رہا اور نہ ہی ان کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں بلکہ میں تو آئینے کے سامنے کھڑا ہوں- آئینہ مجھے میرا ہی عکس دکھا رہا ہے- اس میں آئینے کا کوئی قصور نہیں۔ہم نے اگر لیاری کو اس وقت کوئی کیڈٹ کالج دیا ہوتا,کوئی یونیورسٹی دی ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ نبی بخش, فضلو آقا, شیرو, دادل جنہوں نے گینگ وار میں شہرت حاصل کی ان میں سے ہی کوئی پاکستان کا نامور جنرل ہوتا, ان میں سے ہی کوئی جسٹس ہوتا, کوئی نامور سرجن تو کوئی مشہور تاجر ہوتا-جب ہم نے ان کو غربت و افلاس, بھوک تباہ حالی اور بربادی دی تو ہمیں وہی ملا جس کے ہم حقدار تھے ۔
(جاری ہے )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں