میں کھلاڑی تو اناڑی (فرحان شبیر)

آج کل کھلاڑیوں کا مقابلہ اناڑیوں کے ساتھ پڑا ہوا ۔ شور اتنا ہے کہ رگ رگ میں محشر برپا ۔ ارے روکو، پکڑو یہ دیکھو اناڑی اور اسکی اناڑیوں کی ٹیم کیا کر رہی ہے ، ہائے کاروبار کو جان کر رہے ہیں ۔ یہ ملک ڈبو رہے تباہ کررہے ہیں ۔ پیاز کی پرتوں کی طرح کھل رہے ہیں برف کی باٹ کی طرح پگھل رہے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ .
جب تک کھلاڑی حکومت میں تھے سارے دانشوڑ ٹریڈ ڈیفیسٹ کے خطرناک حد تک بڑھنے ، امپورٹ میں پانچ سالوں تک ایک ڈالر تک اضافہ نہ ہونے ، ڈیٹ ٹو جی ڈی ریشو ریڈ لیول کراس کر جانے تک کی خبروں کو ایک آنکھ پر ہاتھ رکھ کر پڑھتے رہے دوسری آنکھ کے سامنے ہمیشہ اشتہارات نظر آتے تھے لہذا معیشت پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہوتا تھا ۔ ہائے یہ اگر اس وقت اپنے کیلکولیٹر نکال لیتے تو شاید اسوقت اتنی بھک منگی صورتحال نہ ہوتی ۔ یہ سیانے گرگئے تھے سجدے میں جب وقت قیام آیا ۔
کھلاڑی اتنے فنکار تھے کہ آنے والی حکومت کے ہاتھ پاوں باندھنے کے لئیے جاتے جاتے کمال ڈھٹائی کے ساتھ آنے والے سال بجٹ تک خود بناکر گئے ۔ جس میں ریونیو کی قربانی کر کے مختلف طبقات کو ٹیکسز کی چھوٹ دے کر نوازا گیا ۔ تاکہ آنے والی حکومت ریونیو کلیکشن کا ہدف پورا کر ہی نہ پائے ۔ سب کو خوش کرنا تھا لہذا سیلیریڈ پرسن کے ٹیکس کی شرح سے لیکر slabs تک ریلیکس کر کے چلے گئے ۔ بظاہر عوام کو اچھا لگا کہ حکومت نے ریلیف دیا لیکن یہ ریلیف حب علی سے زیادہ بغض معاویہ کا شاخسانہ تھا ۔
پھر اس ٹیم کے سب سے بڑے کھلاڑی اسحاق ڈار کا کارنامہ غلط اعداد و شمار پیش کرنا تھا ۔ ملکی قرضوں کی تفصیل 2016 میں آن ریکارڈ اسمبلی میں غلط جمع کرائی ، فارن ریزرو کے حوالے سے جھوٹ ، بانڈز کے اجرا اور انکی شرح منافع پر جھوٹ ، پاور کمپنیز کی ادایگیوں کے بارے میں جھوٹ ، حتی کہ ملکی اثاثے کی گروی رکھے جانے کی ڈیٹیل بھی غلط اور جھوٹ کہ آج پتہ چل کر حکومت کے ہوش آڑ رہے ہیں ساورن گارنٹیز کی مد میں ہی ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ چڑھا دیا کھلاڑیوں نے ۔ حالانکہ ان کھلاڑیوں نے سب سے پہلا چونا ہی قرض اتارو ملک سنوارو نعرے سے لگایا تھا ۔
پھر جاتے جاتے اک ہور وڈے کھلاڑی ، پندرہ بیس سالوں میں تیزی سے ترقی کرتی ائیر لائن ائیر بلو کمپنی کے مالک، شاہد خاقان عباسی صاحب، خزانے پر ایسی جھاڑو پھیر کر گئے کہ آنے والوں کے پاس ایک پیسہ نہ رہے ۔ چودہ سو سے سولہ سو ارب روپے تک کی ادئیگیاں کرکے گئے ۔ جن ایکسپورٹرز کو پانچ سال ریبیٹ کے لئیے رلایا انہیں بھی کچھ ادئیگیاں اسی دور میں ہوئیں ۔ پھر ادئیگیاں ہی نہیں عباسی صاحب نے تو ایک ارب روپیہ الیکشن سے پہلے وزیر اعظم کے صوابدیدی فنڈ سے نکال کر اپنے بیٹے کے کے حوالے کر دئے، قوم کے ان پیسوں سے جو صوابدیدی فنڈ میں ضرورت مندوں کی مدد کے لئیے ڈالے جاتے ہیں عباسی صاحب کے حلقے کے لوگوں کو عمرہ پیکج دیا گیا ۔ کیا یہ اندھے تھے جو خزانے کی خانہ خراب حالت نظر نہیں آرہی تھی یا واقعی آنے والی حکومت کو ہر حالت میں کانا کرنا تھا ۔
ادھر پنجاب گورنمنٹ کے کھلاڑیوں نے اپنی تصویروں اور شہزادے شہزادیوں کی پروجیکشن پر میڈیا بھر میں 430 ارب روپے کے ادھار اشتہار چلا دئیے کہ دیتے رہینگے آنے والے ۔ ورنہ تو میڈیا جانے اور نئی حکومت ۔ میڈیا خود ہی قدموں پر جھکا کر اپنے پیسے نکال لے گا ۔ ۔ واہ یہی تو کھلاڑی پن ہوتا ہے ۔ اپنی ہینگ لگے نہ پھٹکری عوام کے پیسوں سے پبلسٹی کا ڈھول بجاو اور سیاست میں رنگ بھی چوکھا لاو ۔ اب یہی 430 ارب روپیہ اس نئی پنجاب گورنمنٹ کے گلے پڑ گیا ۔ انہی پیسوں کا نہ دینا ہی تو ہے جو میڈیا پر ہر صافی و ناصافی اناڑی اناڑی کی گردان لگائے ہوئے ہے ۔ کسی کو چائے کے نہ پوچھے جانے کا غم ہے تو کسی کو اپنی بے قدری کا ۔ یہ کھلاڑیوں کی عنایت خسروانہ کا فیضان ہے جو آج بڑے بڑے دانشوڑ عمران خان کو ناکام ٹہرانے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔
مسلہ یہ ہے یا تو یہ بے چارے معیشت جانتے نہیں اور اگر جانتے تو کھلاڑیوں سے دو چار Basic سے سوال کبھی نہ کبھار تو ضرور پوچھتے ۔ کیونکہ سوال تو یہ بنتا ہے کہ دو ارب ڈالر کے ٹریڈ ڈیفیسیٹ کو بیس ارب ڈالرز تک پہنچانے پر اسحاق ڈار کو اچھا تو کیا صرف معیشت دان بھی کیسے گردانا جاسکتا ہے اتنا تو ایک منشی بھی سمجھتا ہے آمدنی اٹھنی اور خرچہ ایک روپئیا اور جو گدھے اس ٹریڈ ڈیفیسٹ میں نو ماہ میں ہی 30 فید کمی لے آئے وہ آپکی نظر میں کیسے اور بھلا کس طرح اناڑی ہیں ۔
اناڑیوں نے PIA کا loss روک دیا واہ بھئی واہ بڑے زبردست اناڑی ہیں ۔ کھلاڑیوں کو تو شرم آنی چاہئیے کہ پی آئی اے کے نام پر دس سالوں سے ری ویمپنگ ری ویمپنگ کا شور مچانے کے باوجود بھی خسارہ 400 ارب پر پہنچا دیا ۔ جو کہ جمہوریت کے بہترین انتقام کے سب سے بڑے کھلاڑی زرداری کے دور میں شاید 200 ارب تھا ۔ دماغ گھوم کر رہ جاتا ہے کہ آج کے اس دور میں بھی پی آئی اے پر حاضری یا attendance ہاتھ سے رجسٹر میں لکھی جاتی تھی ان بچوں نے اٹیینڈنس کا سسٹم Thumb والا کیا جو آج کے چورن چٹنی بیچنے والوں نے بھی کرالیا ہے ۔ کیا عباسی صاحب کی اپنی ائر لائن ائیر بلو میں بھی اٹینڈینس کا یہی نظام ہوگا اسکا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں ۔
اور کیا گنوائیں کھلاڑیوں کی فنخاریاں ؟ چلو یہ ہر وقت کھلاڑی اناڑی کا شوڑ مچانے والے دانشوڑ ہی کسی ایک ادارے کا ، بس صرف کسی ایک ادارے کا نام بتا دیں جسے ان مہان کھلاڑیوں نے خسارے سے نکال کر منافع میں لایا ہو ۔ کوئی ایک ادارہ ۔ اور ایسا نہیں ہے کہ دنیا کے ملکوں کے ادارے نہیں کما رہے تھے ۔ Emirates ائیر لائن ہماری PIA کو منہ چڑاتی چڑاتی دنیا کے آسمانوں پر چھا گئی ۔ اور اسکی انگلی پکڑ کر اڑانے والی پی آئی اے اپنے بال و پر نچتے دیکھتی رہی ۔
اسٹیل مل تباہ حال ، جالے پڑھ گئے ۔ وہ اسٹیل مل جو ہماری آج کی امپورٹ بل کی کئی ادائگئیوں سے نجات دلا جو آج ہم اسٹیل کی امپورٹ کی صورت میں لاد رہے ہیں ، ایک بوچھ بن گئی ہے ۔ اسکے ایمپلائز کی تنخواہیں بھی یہ اناڑی کلئیر کر رہے ہیں کہ وہ چلے تو آنے والے دنوں میں چار پیسے بھی کمائے ۔ کوئی سوچ سکتا یے کہ جس ملک میں CPEC سے لیکر دیگر بڑے بڑے پراجیکٹس میں اسٹیل کی بے تحاشہ کھپت ہو، چائنا سے لیکر ملک کی دیگر اسٹیل ملز سے حکومت کو اسٹیل کی Buying کرنا پڑھ رہی ہو اسکی اپنی خود کی سمندری جیٹی رکھنے والی اسٹیل مل سسک سسک کر گھٹ گھٹ کر دم توڑ رہی ہو مسلسل خسارے میں چلانی پڑھ رہی ہو لیکن ریاض لال جی سے لیکر شریفوں کی اپنی اسٹیل فیکٹریاں فولاد پہ فولاد ڈھالے جارہی ہوں ۔ ہذا من فضل ربی ۔ اپنی فیکٹری میں ایک مزدور اضافی نہ رکھو ۔ PIA، اسٹیل مل ، OGDCL , PPL ,M اور ان جیسے سارے کماو پوت اداروں کو بھر دو سیاسی کارکنوں سے ، مس مینیجمنٹ کے ذریعے ڈس انٹیگریٹ کرا دو تباہ کرا دو ۔ اور بعد میں اسکریپ بھی نہ چھوڑو ۔
اسی پاکستان میں ہم دیکھ رہے تھے کہ کورئیر سروسز کے میدان روز روز نئی کمپنیاں نمودار ہورہی تھیں ۔ چیتا ، لیپرڈ، ٹی سی ایس ، DHL ، پھر ڈائیئوو والوں کی بھی کارگو ہینڈلنگ ، پھر ٹرک ٹرالر سے کارگو ہینڈلنگ الگ بزنس ۔ 2۔2 بلین ڈالرز کی کارگو ہینڈلنگ مارکیٹ سے ساری یہ پرائویٹ کمپنیاں اپنا اپنا حصہ وصول کر رہی تھیں وہیں ہمارا اپنا Pakistan post ” ڈاکیا ڈاک لایا ڈاکیا ڈاک لایا والے” سسٹم میں پھنسا ہوا تھا ۔ کسی کھلاڑی کو کبھی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ پاکستان پوسٹ کے گاوں گاوں دوردراز کے علاقوں تک بنے بنائے اس سسٹم کو ذرا سا اپ گریڈ کر کے، ڈیجیٹلائز کرکے اور موبائل ایپس پر لاکر کچھ کما کر ملک کے خزانے میں تھوڑا کچھ پیسہ ڈال بھی دیں ۔ اب یہی ” اناڑی” اسی پاکستان پوسٹ کو ڈیجیٹل مارکیٹ میں لے آئے ۔ منی ٹرانفسر کی سہولیات سے موبائل بینکنگ انڈسٹری میں سے بھی اپنا شئیر لیا اور ساتھ میں سامان کی زیادہ ترسیل سے کام بھی زیادہ ہوا ۔6 ارب کا منافع ہوگیا پاکستان پوسٹ کو ۔ یہ آگے اور زیادہ ہونا ہے کیونکہ Cpec کی صورت میں اس پورے خطے میں ٹرانسپوٹیشن سیکٹر میں بیس فیصد کا اضافہ ہوگا ۔ تبھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ روٹھی ہوئی ائیر لائینز پھر سے پاکستان واپسی کے روٹس کھول رہی ہیں ۔
مجھے یہ بھی حیرانی ہوتی ہے کہ مُحَمَّد بن سلمان بھی بے وقوف تھا کہ اس نے کہا کہ وہ عمران خان وزیراعظم بننے کا انتظار کرہے تھے ۔ زمانے کے سرد و گرم دیکھے ہوئے ملائیشیا کے قابل احترام وزیراعظم مہاتیر مُحَمَّد بھی غالبا عقل سے پیدل ہوگئے ہیں بقول نارووال کے ارسطو ” اناڑی کے ہاتھ استرا دیکھ کر بھی سنبھل نہیں رہے جو بھاگ بھاگ کر دامے درمے سخنے پاکستان میں انویسٹمینٹ کے پلان لیکر آرہے ہیں ابھی کل ہی کویت نے 22 ارب ڈالرز کی انویسٹمینٹ کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ 2 لاکھ 20 ہزار فی یونٹ کے لحاظ سے آسانی سے بنائے والے گھروں کی اسکیم تک لانچ کرنے کا ارادہ ظاہر کرہے ہیں ۔
پھر سب بڑھ کر کیا یہ چین کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ” او تیری تو۔۔۔ لٹ گئے۔۔ برباد ہوگئے۔۔۔ یہ پاکستان میں کون اناڑی آگئے۔۔۔ یہ کس کے ہاتھوں میں استرا آگیا ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں تو چین کا عالم یہ ہے انہی اناڑیوں کے وزیراعظم کو دورے پر بلا کر پاکستان کو آسیان ممالک ( ملائشیا ، ویٹ نام وغیرہ ) کی طرح کا ڈیوٹی فری معاہدہ کرلیتا ہے کہ ” چل جانی 313 پراڈکٹس ڈیوٹی فری لے آو ” ۔ اس میں پاکستان اگر صرف گارمنٹس میں ہی فوکس کر لے تو وہ ہی اپنے کو کافی ہے بھائی ۔ ایک تو پاکستان کی بہترین کپاس ، ہمارا پہلے سے ٹیکسٹائل میں برسوں کا تجربہ اور ابھی بھی انسٹالڈ اینڈ ان پلیس انڈسٹری اور تیسری اور سب سے بڑی بات چین کی کپڑے کی پوری مارکیٹ ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ چین سالانہ 625 ارب ڈالرز کے کپڑے ، گارمنٹس اور اس سے متعلقہ آرٹیکلز import کرتا ہے یعنی دنیا سے خریدتا ہے تو اب ہمارے پاکستانی گارمنٹس ایکسپورٹرز کے لئیے سوا ارب لوگوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ کھل گئی ہے ۔ جوکہ بہت بڑی اپرچونٹی ہے پاکستان کے لئیے اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑے ہونے کے لئیے ۔ کیونکہ ٹیکسٹائل فارن ایکسچینج کے ساتھ لیبر فورس کو کھپانے میں بھی نمبر ون سیکٹر رہا ہے پاکستان کا ۔
میں حیران ہوں کہ یہ اچھے اناڑی ہیں جو ٹیکس کی دنیا کا معتبر ترین نام شبر زیدی کو لے آتے ہیں ایف بی آر کو سنبھالنے کے لئیے ۔ جس نے آتے آہی پاکستان کی معیشت کی خرابی کی روٹ کاز کو ختم کرنے کے لئیے کام شروع کردیا ۔ یعنی معیشت کی ڈاکومینٹیشن ۔ بلیک اکانومی جب سامنے ائیگی تب ہی پاکستان کی معیشت بھی سدھرے گی ۔ ہاں جہاں تک بات آئی ایم ایف کے معاہدے کی ہے تو اس منزل تک نوبت نہ پہنچنے کی ہم نے بھی بہت دعا کی تھی لیکن” بیگرز آر نوٹ چوزرز” والی بات کہ اگر پچھلوں نے اس حال میں چھوڑا ہوتا تو کچھ اکڑ بھی دکھاتے ۔ وہ تو ابتدائی بھاگ دوڑ رنگ لائی دوست ممالک بروقت آگے بڑھے اور یوں پچھلے ایک سال میں پندرہ سولہ ارب روپیہ اسی پاکستان بچاو مد میں آگیا ۔ یہ تھوڑی بہت اکڑ اور بھاگ دوڑ ہی کام آگئی کہ آئی ایم ایف کا شکنجہ اتنا سخت نہیں جتنا پہلے لگنے کا امکان اور رویوں کا پلان تھا ۔ تھوڑا اطمینان یہ تسلی دیکر بھی ہوا کہ امریکہ ہی کے نہیں روس اور چین کے بھی آئی ایم ایف میں شئیرز ہیں ۔ لہذا وہ بھی اب آئی ایم ایف کو اپنا گندہ کھیل کھل کر نہیں کھیلنے دینگے ۔
اپنا کہنا تو یہ ہے اناڑی ٹن کے لگے رہیں دو چار اناڑیوں نے بھی کام دکھا دیا تو قوم کی ان کھلاڑیوں سے جان چھوٹ جائیگی جو ملک کے لئیے نہیں اپنی سینچریاں بنانے کے لئیے کھیلتے رہے اور قوم کی جان بھی ایسے کمنٹریٹروں سے چھوٹ جائے جنہوں نے مداریوں کو کھلاڑی بتا بتا کر قوم کو چونا لگائے رکھا ۔
والسلام
فرحان شبیر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں