تحریر: محمد عمران چوہدری، شارجہ یواے ای.
حکیم صاحب میں نامرد ہوں، اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا، آپ کو کیسےمعلوم ہوا، میری بیوی نے بتایا اس نے جواب دیا، حکیم صاحب نے اس کا تفصیلی چیک اپ کیااور پھر اپنے معاون کو بلا کر اسے 15 دن کی دوا دینے کا حکم صادر فرمایااور تاکید فرمائی کہ 15 دن بعد دوبارہ حاضر ہو۔
کچھ افاقہ ہوا، اگلی حاضری پر حکیم صاحب نے پوچھا ! نہیں، اس نے مایوسی سے جواب، ایک بار پھر وہی مشق دہرائی گئی اور اگلے 15 دن کی دوا تھمادی گئی، تیسری حاضری پر بھی اس کا وہی جواب تھا، اب کی بار حکیم صاحب کےصبر کا پیمانہ لبریز ہوگیااور انہوں نے اسے دوا دیتے ہوئے کہاکہ اب کی بار بیوی کو بھی ساتھ لے کر آو۔
میرے معائنے کے مطابق تو یہ بلکل ٹھیک ہے، صرف دل کی تسلی کے لیے میں اسے دوا کھلا رہا ہوں، آپ بتائیں یہ کیسے نامرد ہے، اگلی نشست پر حکیم صاحب نے اس کی بیوی سے سوال کیا، میرے بابا مجھے شہزادی جیسے القابات سے بلاتے تھےاور یہ مجھے کُتی، کنجری جیسے غلیظ القابات سے بلاتا ہے، میرے باپ نے کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا اور یہ مجھ پر ہاتھ اٹھا کر خود کو مرد ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے میں نے اسے کہا کہ تم نامرد ہو، اس کا جواب سن کر اس کا شریک سفر شرم سے پانی پانی ہو چکا تھااور حکیم صاحب اس خاتون کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے نامرد، مردوں کی کثرت ہےجو عور ت پر تشدد کے ذریعے خود کو مرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،آئے روز ایسے واقعات پیش آتے ہیں، گذشتہ ہفتے چارسدہ میں ایک خان صاحب نے روٹھی بیوی کو ہلاک کردیا، اپنی مردانگی دکھانے کی جلد بازی میں اسے اپنا 5 سالہ بچہ بھی نظر نہ آیا جو ماں کی ہلاکت کے بعد چیخ پکار کرتا رہا، اور پھر یہ بہادر مرد فرار ہونے کی کوشش کے دوران پکڑا گیا۔
وزارت انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو اور جنسی تشدد پاکستانی معاشرے میں غیر محسوس طریقے سے سرائیت کرتا جارہا ہے، ایک غیرسرکاری تحقیق کے مطابق پاکستان میں 15 سے 29 سال کی کم وبیش 28 ٪ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک فاؤنڈیشن کے مطابق سال 2021 میں پاکستان بھر میں2000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے،WHO کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں کم و بیش 30 فیصد خواتین کو جسمانی یاجنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثریت کیسز میں یہ کام کرنے والا ان کا شوہر یا شریک سفر ہی ہوتا ہے۔
حالیہ برسوں میں اعلی تعلیم یافتہ سارہ انعام کا قتل ہو، جامشورو یونیورسٹی کی ساجدہ عباسی کا بدترین تشدد کے ذریعے قتل یاپھر نورمقدم کا تشدد کے ذریعہ قتل ہو، ہر جگہ ظالم شریک سفر ہی نظر آتا ہے۔
اوریہ تمام مرد اس ذات پر تشدد کے ذریعے اپنی اناکو تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، اس ذات کو تشدد کے ذریعے تسخیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں پر اپنی انرجی صرف کرتے ہیں جہاں پر ہمارے دین نے نرمی کرنے کا حکم دیا ہے، قران مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت نے مرد انہیں قرار دیا ہے ” مرد وہ ہیں جنہیں خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے نہیں روکتی ” اور ہم عورت پر تشدد کے ذریعے خود کو مرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاجدار مدینہ، راحت وقلب سینہ وجہہ وجود کائنات حضرت محمد ﷺ کا فرمان عالیشان (مفہوم)۔” تم میں سب سے بہتر وہ جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا ہوں” ہمارے دین میں اس مرد کو اچھا مرد قرار دیا گیا ہے جو اپنی بیوی سے دبتا ہے ( اور ہم اسے رن مرید قرار دیتے ہیں )۔ افسوس ناک امر یہ ہے یہ مضمون نہ ہمارے گھر میں پڑھایا جاتا ہے، نہ ہی اسکول میں اور نہ ہی آئمہ اپنے خطبوں میں یہ بیان فرماتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنے تربیتی نظام کو عصر حاضر کی ضروریات کے مطابق ڈھالیں، اسکول، کالج، یونیورسٹی کی سطح پر یہ لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے، علما اپنے خطبوں میں اسے باربار موضوع بحث بنائیں، وگرنہ خدانخواستہ یہ عفریت ہم سب کے گھروں تک پہنچ جائے گی