طبل جنگ

باضمیر انسان کسی بھی قیمت پر قابض اور استحصالی قوتوں کو قبول نہیں کرتے،کشمیر سے فلسطین تک ظالم کی مذمت اور مزاحمت کی حمایت کی جاتی ہےجس کی بنیادی وجہ مقامی آبادی یر تسلط اور انکے حقوق غصب کرنا ہے۔آپ فراخدلی سے کسی کو اپنے گھر یا زمین پر جگہ دیں وہ ایسا آباد ہو کہ آپ کی زمین آپ پر ہی تنگ کردے آپکا ردعمل تنگ آمد بجنگ آمد جیسا ہوگا؟ زرا سوچیئے ہم زمین اور قدرتی وسائل کا وہی حشر کررہے ہیں جو اسرائیل فلسطین اور بھارت کشمیر کا کررہا ہے اور اب ہمیں قدرتی مزاحمت کا سامنا ہے۔

کراچی میں پےدرپے بارشوں کو دیکھ کر تو یہی خیال آتا ہے کہ فطرت نے طبل جنگ بجادیا گرین لائن کے نام پر گرینری کے بےدریغ قتل عام ،انڈرپاسز کی آڑ میں شہید ملت روڈ سے سبزہ اکھاڑ پھینکا ،پارک اجاڑ کر پلازے اور کچرہ کنڈیاں بنانے کی سزا بھگتنا پڑے گی یوں لگتا ہے کہ جیسے گجرنالہ تنگ ہوتے ہوتے تنگ آگیا ہو انتظامیہ کی طرح تحریری وارننگ دینے کے بجائے سیدھا ایکشن لیا ،بلڈوزر کے آگے لیٹنے اور شور شرابہ کرنے والے قابضین پانی کے ریلے کے سامنے ٹہر نہ سکے جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد پسپا ہوگئے ۔

لگتا ہے لیاری ندی بھی کچرے کا بوجھ سہتے سہتے اکتانے لگی ہو اور سود سمیت ادھار چکانا چاہتی ہے تجاوزات کی بھرمار سے ملیر ندی کا موڈ بھی خراب ہے اب راہ میں جو آیا تہس نہس ہوجائے گا بےضمیر اور بےحس لوگوں نے ندی نالوں کے ساتھ ساحل پر بھی پلاٹنگ شروع کردی ندی نالوں کے آگے بےبس افراد اور انفرااسٹرکچر کو سمندری غضب کا سامنا کرنا پڑا تو کیا ہوگا واضح رہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی سمندر سے زمین ہتھیانے میں ناکام رہے ہری کین کترینہ کے ذریعے سمندر نے وہ تمام اراضی دوبارہ ضم کرلی جہاں شاندار رہائشی اور تجارتی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں ۔ یہ ساری اراضی کسی دور میں سمندر کا حصہ تھی ، ہارپ کے ذریعے عالمی موسم کو غلام بنانے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی دو ہزار سترہ میں یکے بعد دیگرے سمندری طوفانوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ہوش اڑا دئیے۔

تازہ تباہی کیلیفورنیا میں جنگلات کی خوفناک آتشزدگی کی صورت جاری ہے اس سے قبل آسٹریلیا نے آبی ذخائر بچانے کی خاطر ہزاروں اونٹ مار ڈالے اور پھر جنگلات اس بری طرح جھلسے کہ پورے ملک کا پانی جھونکنا پڑا دنیا بھر سے مدد لینا پڑی۔

دوسری جانب فطرت کو ستانے کی سزا پوری انسانیت بھگت رہی ہے مزے کی خاطر چینیوں نے چمگادڑر اور پینگولین کی نسل کشی کی جوابی وار میں دنیا بھر کے لاکھوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔کورونا کی تباہ کاریاں تاحال جاری ہیں۔

اب پاکستان کی جانب واپس آتے ہیں اپنے سی ویو پر بھی پانی کو پیچھے دھکیلنے کے جتن جاری ہیں بس جس دن سمندر کا صبر جواب دے گیا اس روز حشر نشر کردے گا ۔ اکتوبر بھی آنے کو ہے جب موٹر ویز پر اسموگ کی اجارہ داری ہوگی بھٹہ مزدوروں اور مالکان کے کئیے کی سزا پوری قوم کو ملے گی ایک بات تو طے ہے کہ تمام تر ترقی اور ٹیکنالوجی کے باوجود قدرت سے جیتنا ناممکن ہے قدرتی وسائل کی اس چھینا جھپٹی میں ہمارے ہاتھ سوائے تباہی کے کچھ نہیں آئے گا ۔ ہماری بقا صرف ماحول دوستی میں پوشیدہ ہے ماحول دشمنی ہمیں فنا کردے گی بصورت دیگر طبل جنگ بج چکا ہے۔
(MUMTAZ RIZVI )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں