اسے میں نے شاید پہلی بارشاہراہ فیصل کارساز سے اسٹیڈیم کی طرف جاتے دیکھا۔۔وہ رات ایک بجے کا وقت تھا،میں دفتر سے گھرلوٹ رہا تھا۔ وہ نیلی پینٹ نیلی شرٹ ، چمڑے کے بھاری بوٹوں میں ملبوس تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے جارہا تھا۔اسکے ایک ہاتھ میں ٹوپی دبی تھی۔۔
کچھ دنوں بعد رات کے اسی پہر، اسی سڑک پر شاید ایک میل آگے، میں نے اسے پھر تیز تیز قدم بھرتے جاتے دیکھا۔۔اور میں اس کے پاس سے گزر گیا۔
شاید کا لفظ ، میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ جب ہم تیز رفتاری سے رواں دواں ہوتے ہیں۔تو آس پاس کے حالات کے بجائے نگاہ سامنے سڑک پر ہی مرکوز ہوتی ہے۔اور ہم اکثر چیزوں پر بغور دھیان نہیں دے پاتے۔
اس کے چند دن بعد پھر میں نے اسے پہلے مقام سے تین کلومیٹرآگے، یعنی اسٹیڈیم کے پل پرپیدل جاتے دیکھا،اس پل پر چونکہ پیدل چلنے کا کوئی خاص راستہ نہیں ہے،اس لئے وہ سائڈ کی دیوارسے بالکل لگ کر ٹریفک سے بچتا ہوا، بدستور پہلے کی طرح تیز تیز چلتا جارہا تھا،جیسے میری طرح اسے بھی گھر پہنچنے کی جلدی ہو۔
وہ ایک پینتیس چالیس برس عمر کا سیکورٹی گارڈ تھا۔
اس روز میں نے پہلی بار اسے نوٹس کیا۔اور مجھے احساس ہوا کہ میں نے اسے پہلی بارنہیں دیکھا۔شاید میں اسے پہلے بھی اس طویل رستے پر،رات کے اسی پہر کئی بار پیدل رواں دواں دیکھ چکا ہوں۔لیکن جتنی دیر میں ، میں نے یہ سوچا ، میں اس سے ایک فرلانگ آگے نکل چکا تھا۔
آگے نکل کر مجھے ایک ندامت کا سا احساس ہوا،کیونکہ میں اس رستے پر مزے سے بائیک پرفراٹے بھرتا ہوا جارہا تھا،لیکن وہ اس طویل راستے پر پیدل رواں دواں تھا، یہ احساس ندامت ہوتے ہوتے بھی میں حسن اسکوائر کے پل پر پہنچ چکا تھا ۔ اور اس کے چند منٹ بعد ہی میں گلشن اقبال میں اپنے گھر کے آرام دہ بسترپر تھا۔
اس روز میں نے سوچا کہ اگلی بار اگر مجھے وہ نظرآیا تو میں اسے آگے تک لفٹ ضرور دوں گا۔
اس کے بعد کئی روز میرا اوراس کا آمنا سامنا نہیں ہوسکا۔اور یہ بات میرے ذہن سے نکل گئی۔لیکن پھر ایک دن وہ مجھے پھر نیشنل اسٹیڈیم کے پل پر نظرآگیا۔خوش قسمتی سے اسے میں نے کچھ دور سے ہی دیکھ لیا تھا، یوں مجھے اس روڈ پراحتیاط سے بائیک اس سے چند قدم آگے روکنے کا موقع مل گیا۔
اتنے میں وہ مجھ تک پہنچا تو میں نے اس سے کہا کہ ، بیٹھیں میں آپ کو آگے چھوڑدیتا ہوں۔وہ ایک دو لمحے حیران ہوا اور پھر شکریہ ادا کرکے بیٹھ گیا۔میں بائیک چلا دی اور اس سے پوچھا کہ آپ کو کہاں جانا ہے وہ کہنے لگا کہ مجھے عیسی نگری اسٹاپ تک جانا ہے ، میں نے کہا کہ مجھے اس سے پہلے مڑنا ہوگا تو آپ موڑ پراترجانا، اس نے شکریہ ادا کیا اور بولا ٹھیک ہے وہاں سےمیرا اسٹاپ تھوڑی ہی دور رہ جائے گا۔
بائیک اس وقت مشرق سینٹر کی کھلی سڑک پردوڑ رہی تھی،مجھے چند ہی لمحوں بعد یہ ساتھ ختم ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔حسن اسکوائر کے پل کےاوپر سے بائیں ہاتھ پر نیچے کی جانب اترنے والے رستہ پر میں نے بائیک روک دی اور وہ شکریہ ادا کرکے اترگیا اور مجھ سےہاتھ ملا کر تیز تیز سامنے نظرآرہے عیسی نگری اسٹاپ کی طرف رواں دواں ہوگیا۔
میرے ساتھ اس کے سفرنے اسکا ایک ،سوا کلومیٹر پیدل کا رستہ کم کردیا تھا۔
وہ شاہراہ فیصل سے عیسی نگری تک روزانہ پیدل سفر کیوں کرتا تھا؟
اس کی وجہ کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔کیونکہ وہ ایک سیکورٹی گارڈ تھا،ایک غریب سیکورٹی گارڈ۔
جو بارہ گھنٹے کی نوکری کے بعد پانچ کلومیٹر پیدل چلنے کو شایداس لئے ترجیح دیتا تھا کہ اس طرح وہ چند پیسے بچا لے گا۔
دوستو: کراچی میں سیکورٹی گارڈز کی نوکریاں بہت ہیں۔ہرکڑیل لیکن بے روزگارجوان یہ ملازمت حاصل کرسکتا ہے۔پرائیوٹ سیکورٹی کمپنیاں دس سے بارہ ہزار روپے میں ان کی بیگار بارہ گھنٹوں کیلئے حاصل کرلیتی ہیں۔
یوں ان جوانوں کے تقریباً پورے دن کا ہی سودا چند ٹکوں جتنی رقم کےعوض ہوجاتا ہے۔
یعنی روز کے تین سو ،چار سو روپے۔جو کہ ایک غیرہنرمند مزدور کی بھی آدھی دیہاڑی کے ہی برابر ہیں۔
بڑے بڑے بزنسوں کے باہر نیلی وردی میں ملبوس یہ گارڈز اندر سے کس کرب سے گزر رہے ہوتے ہوں گے۔اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔
یہ واقعہ دو برس پرانا ہے.یہ واقعہ مجھے کل ایک تصویر دیکھ کر یاد آیا، جس میں ایک سیکورٹی گارڈ دفتر میں خودکشی کرکے مردہ پڑا تھا۔نہ جانے یہ جوان کون تھا۔میں نہیں جانتا۔
شاید خودکشی کرنے والے اس جوان نے اپنی کم تنخواہ پر احتجاج ریکارڈکرایا تھا، شاید اسے سیکورٹی گارڈز کیلئے قائم ان بیگار کیمپوں کے خلاف اپنا سخت احتجاج ریکارڈ کرانے کا یہی طریقہ سمجھ آیا تھا۔
سیکورٹی گارڈ کی خودکشی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، کراچی میں پہلے بھی متعدد سیکورٹی گارڈز اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرچکے ہیں۔
لیکن یہ کوئی بڑی خبر نہیں، اس لئے کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کون مرا، میت کہاں لیجائی گئی، بیوہ نے چوڑیاں توڑیں ، بہنیں سکتے میں رہ گئیں۔ماں پتھرکی ہوگئی، ننھےبچے بابا سے لپٹ گئے کہ بابا آگئے لیکن نہ جانے بات کیوں نہیں کررہے۔
کہنا بس اتنا ہے کہ شہر میں اس وقت دسیوں ہزارلوگ سیکورٹی گارڈ کی نوکریاں نہیں بلکہ بیگار کررہے ہیں۔شہر میں پرائیوٹ سیکورٹی کا اب ایک باقاعدہ اورناگزیر شعبہ وجود میں آچکا ہے،لیکن یہ سرکاری اجازت سے چلنے والے بیگار کیمپوں سے کم نہیں ہیں۔
وردی پہن کر وردی والوں کی طرح سے نظرآنے والے ان لوگوں کی طرف بھی کوئی دیکھے،انہیں بھی کم از کم مزدورکے برابر ہی اجرت دےدی جائے۔
اب تو نیا پاکستان وجود میں آچکا ہے، تو اس نئے پاکستان میں کوئی ہے جو انسانوں سے لی جانے والی اس بیگار کا نوٹس لے۔
========================
(شعیب واجد)