کراچی میں اب دہشت گردی میں اتنے لوگ نہیں مرتے، جتنے ڈکیتی مزاحمت پر مارے جاتے ہیں۔
پچھلے دس سالوں کے دوران سندھ میں کچھ اور تو نہ ہوا لیکن ڈاکو راج ضرور قائم ہوگیا۔۔خصؤصاً کراچی تو ڈاکوؤں کی محفوظ جنت بن چکا ہے۔
سب سے سنگین بات یہ ہے کہ گن پوائنٹ پر لوٹ مار کو کراچی میں ُمتبادل روزگار’ کے طور پراپنا لیا گیا ہے۔اور اس سے کئی دیگر روزگار بھی جڑ گئے ہیں۔یہ صورتحال پچھلے دس سال میں بد سے بدتر ہوگئی۔۔
کراچی میں روزانہ ڈکیتی کی کئی سو وارداتیں ہوتی ہیں۔سالانہ اعدادو شمار دیکھے جائیں تو لاکھوں لوگوں سے اربوں روپے لوٹ لئے جاتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں بارہ ہزار اسٹریٹ کرمنل سرگرم ہیں۔جنھوں نے اس دھندے کو انڈسٹری کی شکل دے دی ہے۔یہ عادی جرائم پیشہ افراد بے خوفی سے اس گھناؤنے دھندے کو اپنا روزگار بنا چکے ہیں۔
اور روز بروز اپنے گروہوں میں نئے لڑکوں کو شامل کررہے ہیں۔
کراچی میں ڈکیتیوں کے منظم ہونے کی ایک وجہ چوری کے مال کی کھپت ہے۔یہ ڈاکو جو مال لوٹ کر لاتے ہیں اسے چور بازار میں باآسانی فروخت کردیتے ہیں۔جس سے جرم کا ایک باقاعدہ معاشی نیٹ ورک وجود میں آچکا ہے۔ڈکیتیوں کا مال خریدنے والوں میں کباڑیوں اور عام گاہکوں سے لیکر بڑے دکاندار بھی شامل ہیں۔
کراچی میں ڈکیتیوں سے ایک جرم اور بھی جڑا ہے، اور وہ ہے غیر قانونی اسلحے کا باآسانی حصول۔۔کراچی میں ڈاکو عام طور پر تیس بور کا پستول استعمال کرتے ہیں جو انھیں سستا مل جاتا ہے۔قبائلی علاقوں سے تیار ہوکر کراچی لایا جانے والا یہ اسلحہ، کراچی کی کچی آبادیوں اورمضافات میں دستیاب ہوتا ہے۔اسلحہ کراچی پہنچانے کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ سمیت روڈ زرائع کا سہارا لیا جاتا ہےجو اس جرم سے باقاعدہ طور پر جڑ چکے ہیں۔
کراچی میں اسٹریٹ کرمنلز کیلئے صرف اسلحہ حاصل کرنا اور چوری کا مال بیچنا ہی آسان نہیں ، بلکہ گرفتاری کی صورت میں ان کی رہائی بھی بے حد آسان ہے
ڈاکوؤں کو قانون کی چھتری مہیا کرنے والے عناصر بھی موجود ہیں۔۔دیکھا گیا ہے کہ اگر کراچی میں کوئی ڈاکو پکڑا جاتا ہے تو کچھ لوگ اور بعض وکلا فوری طور پر اس کی ضمانت کیلئے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے ہی اہلکاروں سے ڈیل کرلی جائے۔ تاہم اگر پرچہ کٹ چکا ہو تو ان کی ضمانت کا فوری بندوبست شروع کیا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کراچی میں پانچ سو وکیل ایسے ہیں جو اس طرح کے کیسز میں ڈیل کرنے کے ماہر ہیں۔۔ڈیڑھ دو لاکھ روپے میں ایک ملزم آرام سے رہا کرالیا جاتا ہے۔بعض عدالتی اہلکار بھی اس عمل میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔جبکہ ملزمان رہا ہوکرفوری طورپراپنی کارروائیوں میں دوبارہ لگ جاتے ہیں۔
کراچی میں ڈکیتیوں میں اضافے کی بڑی وجہ اسٹیک ہولڈرز کی مجرمانہ غفلت ہے۔ کراچی کی سیاسی جماعت اور سندھ حکومت اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
اس عرصے میں صوبے میں جہاں دیگر شعبوں میں خرابیاں پیدا ہوئیں وہاں لاقانونیت بھی عروج پر پہنچ گئی، جس نے سماج دشمن عناصر کو کارروائیوں کیلئے نہایت سازگار ماحول فراہم کیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے کراچی میں ڈاکوؤں کے گروہوں میں روز بروز نئے لڑکے شامل ہورہے ہیں۔ یہی نہیں ، جرم کیلئے سازگار ماحول کی وجہ سے دوسرے صوبوں سے بھی جرائم پیشہ افراد کراچی آکر وارداتیں کررہے ہیں ۔لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔
اس صورتحال کی وجہ سے عوام جہاں عدم تحفظ کا شکار ہیں، وہیں ان کا غصہ بھی عروج پر ہے۔جو اکثر پکڑے جانے والے ڈاکوؤں پر بدترین تشدد کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔