کلیم عاجز (11 اکتوبر 1920 تا 14 فروری 2015)

نام کلیم احمد اور تخلص عاجزؔ ہے۔ ١١ اکتوبر 1920 میں قصبہ تلہاڑہ، ضلع پٹنہ میں پیدا ہوئے۔کلاس شروع ہوتے ہی والد کا انتقال ہوگیا،چنانچہ پڑھائی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 1927ء میں بہارمیں فساد کی آگ بھڑک اٹھی،گھر کے تمام افراد شہید کردیے گئے۔ ان جاں گسل حالات کا ذہن پر بہت برا اثر ہوا اور دنیا ومافیہا کی خبر نہ رہی۔لمبے وقفے کے بعد1955 بی اے (آنرز)اور1957ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے اور طلائی تمغہ حاصل کیا۔’’بہار میں اردو شاعری کے ارتقا‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر1965میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔پٹنہ کالج، پٹنہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر کے منصب پر فائز ہوئے۔ مسلم ہائی اسکول کے نویں جماعت میں جب زیر تعلیم تھے تو چند غزلیں لکھ کر اسکول کے ہیڈ مولوی ثمر آروی سے اصلاح لی۔پہلی او رآخری اصلاح یہی تھی۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’مجلسِ ادب‘، ’وہ جوشاعری کا سبب ہوا‘، ’جہاں خوش بو ہی خوش بو تھی‘، ’یہا ں سے کعبہ ، کعبے سے مدینہ‘، ’اک دیس ایک بدیسی‘۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق ۔۔ صفحہ نمبر 172

●•●┄─┅━━━★━━━┅─●•●
۔۔۔ کلیم عاجزؔ کے منتخب اشعار ۔۔۔۔

آزمانا ہے تو آ بازو و دل کی قوت
تو بھی شمشیر اٹھا ہم بھی غزل کہتے ہیں

اپنا لہو بھر کر لوگوں کو بانٹ گئے پیمانے لوگ
دنیا بھر کو یاد رہیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ

ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ
دل سے نہ آ دنیا کو دکھانے کے لئے آ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو

مے کدے کی طرف چلا زاہد
صبح کا بھولا شام گھر آیا

اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے

مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں

تلخیاں اس میں بہت کچھ ہیں مزا کچھ بھی نہیں
زندگی دردِ محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے
اے حسن تیرے چاہنے والے کہاں گئے

تو رئیس شہر ستم گراں میں گدائے کوچۂ عاشقاں
تو امیر ہے تو بتا مجھے میں غریب ہوں تو برا ہے کیا

یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا
وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا

یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا

یہ وعظ وفاداری عاجزؔ نہ بدل دینا
وہ زخم تجھے دیں گے تم ان کو غزل دینا

ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام
پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو

یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا
وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا

غم دل ہی کے ماروں کو غمِ ایام بھی دے دو
غم اتنا لینے والے کیا اب اتنا غم نہیں لیں گے

امتحان شوق میں ثابت قدم ہوتا نہیں
عشق جب تک واقف آداب غم ہوتا نہیں

حقیقتوں کا جلال دیں گے صداقتوں کا جمال دیں گے
تجھے بھی ہم اے غم زمانہ غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے

کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے
اب تو کچھ فیصلہ کر جانے کو جی چاہے ہے

نظر کو آئنہ دل کو ترا شانہ بنا دیں گے
تجھے ہم کیا سے کیا اے زُلفِ جانانہ بنا دیں گے

شکایت ان سے کرنا گو مصیبت مول لینا ہے
مگر عاجزؔ غزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے

✧◉➻═════════➻◉✧

انتخاب : کامران مغل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

کلیم عاجز (11 اکتوبر 1920 تا 14 فروری 2015)” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں