گھرکی چیزگھر میں رہنے دو(شعیب واجد )

بھیا یہ چیزوں کی بیچ باچ اچھی نہیں ہوتی۔برخورداراسدعمر نے بھی آج کہہ دیا کہ “کےالیکٹرک” کوچین کی شنگھائی الیکٹرک کو بیچنےکاارادہ رکھتے ہیں۔کیوں بھائی،کیا بہت ضروری ہے کہ ہرسال کوئی نہ کوئی ملک ہمارے ملک کا بتیس ارب روپیہ اپنے ملک لےجائے۔یہ منافع اگراپنے ہی ملک میں رہے تو کیا برا ہے؟

ویسے آپ کو حیرت ہورہی ہے کہ “کےالیکٹرک” ہر سال بتیس ارب کا خالص منافع کماتا ہے؟جی بالکل ایسا ہی ہے۔۔اس سال بھی “کےالیکٹرک” نےخود بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں اس کارکردگی پرخوشی کا اظہارکیا تھا۔۔ہمارےاس ادارے میں اتنا پوٹینشیئل ہے کہ وہ سالانہ دوکھرب کی آمدنی حاصل کرتا ہے۔اوربتیس ارب روپےمنافع کماتا ہے۔اورایسا کئی سال سےجاری ہے۔۔
آپ سب کو ایک بات تو یاد ہوگی۔۔چند سال قبل جب “کےالیکٹرک” سرکاری ادارہ تھا توسب،اسکےایک آدھ ارب خسارے کوتنقید کانشانہ بناتے رہتے تھے۔اوورایمپلائمنٹ پربھی تنقید کی جاتی تھی۔لیکن اگرآج کےپرائیوٹ “کےالیکٹرک” اور ماضی کے سرکاری”کےالیکٹرک” کا موازنہ کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ کارکردگی میں معمولی بہتری ہوئی ہے۔ماضی کی نسبت لوگوں کو روزگاربھی بہت ذیادہ نہیں ملا۔بس نام “کے ای ایس سی” سے بدل کر”کےالیکٹرک” کردیا گیا،،کچھ “ششکوں” کا بھی اضافہ کیاگیا۔
موجودہ “کےالیکٹرک” انتظامیہ پونےدوارب ڈالرکےعوض ادارے کا کنٹرول شنگھائی الیکٹرک کو دینےکاارادہ رکھتی ہے۔۔ویسے کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت پاکستان کسی دوست ملک سے پونےدوارب ڈالرحاصل کرکے “کے الیکٹرک” سے یہ ادارہ واپس خرید لے۔۔اور اس دوران “کے الیکٹرک ” کے پاکستانی عملے نے جو صلاحیتیں اور تجربہ حاصل کیا ہے۔اس سے استفادہ کرتے ہوئےادارے کو باقاعدہ سرکاری کنٹرول میں چلائیں۔۔بتیس ارب روپے کا سالانہ منافع پونےدوارب ڈالرکا قرضہ واپس کرنے میں اہم کردار ادا کرےگا۔ایسا بالکل ممکن ہےکیونکہ نئی حکومت گڈ گورننس کی علم بردار ہے۔اور اس ادارے کو اپنے ٹیسٹ کیس کے طورپر لے سکتی ہے۔
اور اگر “کے الیکٹرک ” کو واپس قومیانا ممکن نہ ہو تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مقامی طور پر وسائل جمع کئے جائیں۔اس کیلئے ادارے کے ملازمین کو ادارے میں حصہ دار بنایا جائے ,ساتھ ملکی سرمایہ کاروں کے تعاون سے ایک گورننگ بورڈ اورمالیاتی کنسورشیئم بنا کرادارے کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔کتنا اچھا ہو کہ گھر کی چیز گھرمیں ہی رہے۔
امید کی جاسکتی ہے کہ اگر ایسا ہوگیا تو یہ ادارہ ایک بارپھر “کاروباری ادارے” کے بجائے عوامی ادارے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔اور امید ہے کہ یہ ماضی کی طرح خسارے سے دوچار بھی نہ ہو۔۔اس تجویز پر اگر غور کیا جائے تو یہ قدم نہ صرف کراچی میں بجلی کےنظام میں مزید بہتری،بلکہ پاکستان کی معیشت کیلئے بھی ایک مثبت قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں