پہلے صحافی خبر کی حرمت پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عادی تھے، ٹی وی چینلز کی بہار آئی تو سمجھوتہ خزاں کے سوکھے پتوں کی طرح ایڈیٹوریل لائن کی کھاد بن گیا، اب اس خوبصورت اصطلاح کی کیاری میں خواہشات کے رنگ برنگے انوکھے پھول لہراتے نظر آتے ہیں۔ خواہش کب خبر کا روپ دھار گئی نہ صحافیوں کو پتہ چلا نہ عوام کو، اب صورتحال یہ ہے کہ اخبار ہو یا نیوزچینلز، خبر کسی کے پاس نہیں بس خواہشات کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ ہے۔ الحمداللہ اب چونکہ بزعم خود میڈیا طاقتور ہے سو حکومت بنانے اور گرانے کا دعویٰ کر سکتا ہے بلکہ دھڑلے سے کرتا ہے جبکہ اصل کاریگر پردہ زنگاری میں طفلانہ اٹکھیلیوں پر زیر لب کھلکھلاتا ہے۔
پچھلے دور کی بات ہے ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام مقبولیت کا درجہ رکھتے تھے اب حالات حاضرہ کے پروگرام عوام الناس کی اولین توجہ کا مرکز ہیں، چونکہ بچوں کی طرح ناظرین بھی چالاک ہو گئے ہیں لہذا جگنو کو اندھیرا ہوتے وقت دیکھتے ہیں۔ ٹی وی کھولنے والے کو بخوبی پتہ ہوتا ہے کہ کونسا اینکر اور تجزیہ کار کس کے لتے لے گا اور کس کے گن گائیگا اور قطعی متضاد تجزیوں اور تبصروں کیلئے کونسا چینل مناسب رہیگا، بعض بے خبر ناظرین تو یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ چینل کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے، خیر جناب آپس کی بات تو یہ ہے کہ خبر اب صحافیوں کے پاس کم عوام کے پاس زیادہ ہوتی ہے۔ اگر قسمت سے رپورٹر کو کبھی کبھار کوئی خبر مل بھی جائے تو مارکیٹنگ کی ڈور، ریٹنگ کی دوڑ اور ادارے کے زور کی چھلنی سے گزر کر سب کچھ ہوتی ہے مگر خبر نہیں ہوتی۔ آپس کی بات ہے ہم میں سے کوئی بھی آئینہ نہیں دیکھنا چاہتا سو پوری قوم من گھڑت خوابوں کی خود ساختہ تعبیروں اور خواہشات کے انمول معجزات کی اسیر ہے۔
خواہش یہ ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہے جبکہ خبر یہ ہے کہ ہر خاص و عام اپنے آپ کو قانون سے ماورا گردانتا ہے۔ سرکاری بیان تو یہی ہے کہ سب قانون کے سامنے جوابدہ ہیں مگر سیاستدان سے حساب مانگو تو جمہوریت دشمن قرار دیا جائے، کسی منصف سے پوچھ تاچھ کرنے کی جسارت کرو تو توہین عدالت کے مرتکب، عسکری اداروں کی طرف دیکھو تو غدار اور مذھبی علما سے سوال کرو تو توہین مذھب کا مجرم اور جہنم واصل قرار دیا جائے اور کہیں امرا کے کان کھینچے جائیں تو سرمایہ کاری خطرے سے دوچار ہوتی ہے، پھر بھی ہر مقتدر ہستی یہ اعلان کرتی ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں تو حضور اب آپ ہی بتائیے اس صورتحال میں عوام بیچارے قانون کی عزت کریں تو کس دل سے کریں۔ خواہش تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ بالادست ہو مگر خبر یہ ہے کہ ارکان خود ایوان کو زیردست ثابت کرنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار رہتے ہیں، ہر دو چار سال بعد چوراہے پر غلیظ کپڑوں کے ڈھیر دھلتے ہیں، ایسی جوتم پیزار ہوتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ خواہش تو یہ بھی ہے کہ ہم جمہوریت پسند قوم ہیں، خبر یہ ہے کہ ہم جتنی خوشدلی سے آمریت کا استقبال کرتے ہیں اس کی مثال عالم عسکریات میں نایاب ہے۔ ایوب خان سے لیکر کر مشرف تک آئین توڑنے والوں کے روحانی سلسلے آج بھی دراز ہیں اور سلسلہ ضیائی کی چکاچوند تو آج تک عقل و دانش کو چندھیا رہی ہے، غیر جمہوری عناصر کو سنگین غداری کے دسترخوان پر دعوت شیراز دینے والے جمہوری قائدین کی فہرست بھی کچھ کم طویل تو نہیں ہے۔
اگرچہ ملک و قوم کو کبھی جمہوریت کے نام پر لوٹا تو کبھی آمریت نے جی بھر کے کھسوٹا مگر نیت دونوں کی اب بھی نہیں بھری۔ بہرحال خواہش یہ ہے کہ ملک کی معشیت مضبوط ہو، خبر یہ ہے کہ ٹیکس چوروں اور انکے سرپرستوں کی سب سے بڑی تعداد پارلیمان میں پائی جاتی ہے۔ سیاسی شہنشائوں کے بیش بہا خزانے غیر ممالک میں محفوظ و مامون ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ کرپشن ناسور ہے مگر سب اسی زلف کے اسیر ہوئے کے مصداق طبقہ اشرافیہ سے لیکر چھونپڑیوں کے باسی اسی مرض لادوا میں مبتلا ہیں، مزیدار بات یہ ہے کہ جو جتنا کرپشن کی دلدل میں غرق ہے اتنا ہی کرپشن کی خلاف جہاد کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ اجتماعی خواہش یہ ہے کہ جمہوری عمل کو پٹری سے اترنے نہیں دیا جائیگا،
خبر یہ ہے کہ تین، تین بار حکومت کرنیوالے جمہوری قائدین بھی خلائی مخلوق سے شکوہ کرتے ہیں اور ہر جانیوالا وزیر اعظم بلا استثنیٰ ہاتھ بندھے ہونے کی دہائی دیتا نظر آتا ہے۔ خواہش یہ ہے کہ فوج وزارت دفاع کے ماتحت ہے، خبر یہ ہے وزیر دفاع محض ایک اعزازی عہدہ ہے جو برے وقتوں پر بھلے آدمی کو کردار ادا کرتا ہے۔
خواہش یہ ہے کہ افغانستان، برادر اسلامی ملک ہے جبکہ خبر یہ ہے کہ برادر ملک ہمیں منافق اور کافر قرار دیتا ہے، خواہش یہ ہے کہ امریکہ ہمارے بغیر افغانستان کی جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتا جبکہ امریکہ پہلے ہمیں کرائے کا ٹٹو اور اب دہشتگردوں کا سرپرست گردانتا ہے۔ خواہش یہ ہے کہ روس کی کافر حکومت سے اب برادرانہ تعلقات استوار کیے جائیں جبکہ خبر یہ ہے کہ روس ہمیں امریکی پٹھو جان کر تمام کوششوں کو حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے، اگرچہ چین ہم سے مخلص بھی ہے اور دوستی کا رشتہ ہمالیہ سے اونچا بھی ہے مگر شاید اسے سمجھ نہیں آ رہا ہمارا مصرف کیا ہے۔ ایران سے بھی ہمارا اخوت کا دیرینہ رشتہ ہے مگر ایران مصدقہ مشکوک سمجھتا ہے۔ خواہش ہے کہ ایران مخالف سعودی عرب کی چھتر چھایہ میں بننے والی خود ساختہ اسلامی فوج کی سربراہی جنرل راحیل شریف کریں، خبر یہ ہے کہ ہم ایران کے خلاف کسی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے، یمن میں شہریوں پر ہونیوالی گولہ باری کی بھی مذمت کرتے ہیں، قطر کیخلاف عائد کی جانیوالی پابندیوں کو بھی غلط جانتے ہیں، اسرائیل اور عرب تعلقات پر گومگو کی کیفیت اور سعودی عرب میں نمودار ہونیوالی جدت پسندی پر کسی تبصرے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بھارت سے نفرت اور ہندوستانی فلموں اور ثقافت سے الفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ خواہش یہ ہے کہ پاکستان اسلامی برادری کی قیادت کرے مگر خبر یہ ہے کہ مسلم ممالک ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ ایٹمی قوت ہونے کی بنا پر عالمی برادری عزت کرے جبکہ خبر یہ ہے کہ ہم دنیا کا واحد ملک ہیں جسکے ایک ہاتھ میں ایٹم بم اور دوسرے میں کشکول ہے۔
کون جانے خواہش زیادہ اہم ہے یا خبر مگر بہرحال یہ طے ہے کہ ہماری دنیا الگ ہے، آئینہ تو دور کی بات ہم اپنی دنیا کے باہر کچھ دیکھنا اور سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ افلاطون کی کتاب ریاست میں یوٹوپیا کا تصور موجود ہے، ایسی مثالی ریاست جس میں ہر چیز اعلیٰ ترین، حکومت، ادارے اور عوام سب بہترین سطح پر ہوتے ہیں جبکہ اس کے برخلاف ڈسٹوپیا ریاست کا تصور پیش کیا جاتا ہے، جہاں کوئی چیز درست نہیں، ادارے اور پالیسیاں ناکام، ہر آنیوالا حکمراں ہیرو اور جانیوالا ولن، ادارے اور عوام کرپشن میں لت پت، تو جناب من آئینہ تو دیکھنا ہو گا تب ہی پتہ چلے گا ہم یوٹوپیا میں بسے ہیں یا ڈسٹوپیا میں، اس کا فیصلہ آپ بہتر کر سکتے ہیں۔ دنیا غلطیوں سے سیکھتی ہے مگر شاید ہم دنیا کوغلطیاں سکھانا چاہتے ہیں، جاتے جاتے جون ایلیا کا یہ شعر آپ کی نذر
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں